عارفہ شہزاد
چلو باتیں کریں اتنی
فلک کی گود میں سمٹے ستارے تھک کے سو جائیں
زمیں پر بکھرے منظر سب کے سب حیران هو جائیں
اترتی آبشاریں شور کرنا هی بھلا بیٹھیں
ٹھٹک جائیں سمندر کی تلاطم خیز موجیں
پرندے جه چ هے بھولیں
هوا حیرت سے تھم جاۓ!
بنا مقصد،بنا مطلب
چلو نا بولتے جائیں
بہت سے ان کهے لفظوں کے در هم کھولتے جائیں
هماری راه میں
جتنے بھی خاموشی کے پتھر هے
انھیں لفظوں کے قدموں کے تلے
هم روندتے جائیں
کریں هر چند هم بے ربط باتیں هی
مگر ساتھی!
چلو باتیں کریں اتنی
که اک لمحه ذرا رک کر
تمهیں کچھ سوچنا دشوار هو جاۓ
اور ایسے میں اچانک هی
تمهارے سرخ هونٹوں پر
وه دل کی بات آ جاۓ
سماعت منتظر هے جس کی
جانے کتنی صدیوں سے!

Post a Comment