احمد علی برقی اعظمیٰ
وہ بھول گیا مجھ سے برسوں کی شناسائی
”لمحوں نے خطا کی تھی صدیوں نے سزا پائی“
حالات کا اب میں ہوں خاموش تماشائی
بھائی سے تڑپتا ہے ملنے کے لئے بھائی
تصویرِ تصور ہی بس ایک سہارا ہے
فرقت نے بنا ڈالا اُس کی مجھے سودائی
جذبات تھے بے قابو کرتا بھی تو کیا کرتا
اس رشکِ گُلِ تر کی جب یاد مجھے آئی
یادوں کے جھروکوں سے حسرت ہے اسے دیکھوں 
پہلے تھا جو آنکھوں کی میری کبھی بینائی
وہ دیکھنا مُر مُڑ کر اس کا مجھے حسرت سے
باقی نہ رہی میری جب قوتِ گویائی
جو تارِ رگِ جاں پر ہر وقت غزلخواں تھی
رس گھولتی ہے اب بھی کانوں میں وہ شہنائی
دُزدیدہ نگاہی میں کھو جا تا تھا دل جن کی
اُن جھیل سی آنکھوں کی یاد آتی ہے گہرائی
دیتا ہے کوئی دستک آ آ کے درِ دل پر
کاٹے نہیں کٹتی ہے برقیؔ شبِ تنہائی

1 تبصرے

  1. میں ہو ں ادبستان کے اس لطف کا منت گذار
    ہے جہانِ فکر و فن میں جس کو حاصل اعتبار

    اس کی ویب سائٹ پہ ہے جلوہ نما میری غزل
    اس طرح اس نے بڑھایا ہے مرا عز و وقار
    احمد علی برقی اعظمی

    جواب دیںحذف کریں

ایک تبصرہ شائع کریں