احمد علی برقی اعظمی
شاعری کا عالمی دن ہے یہ آج
ہے جو فکروفن کا دلکش امتزاج
شاعری ہی ہر ادب کی جان ہے
جو بدل ڈالے زمانے کا مزاج
ہے یہ یونسکو کی اک دریا دلی
دے رہا ہے آج جو اس کو خراج
شعر تھا پہلے ”حدیثِ دلبری“
آج ہے یہ آئینہ دارِ سماج
میرؔ و غالبؔ کا تغزل آج تک
لے رہا ہے اہلِ دانش سے خراج

توڑ کر اقبالؔ نے فکری جمود
کردئے پیدا نئے رسم و رواج
ہے غزل آئینہئ نقد و نظر
منعکس ہے جس میں رودادِ سماج
کرتی ہے حالات کا یہ تجزیہ
اب نئی قدروں کا ہے اس میں رواج
سب ہیں عصری آگہی سے ہمکنار
اب ہے اردو شاعری کا یہ مزاج
گردشِ حالات ہے اس سے عیاں 
ہے امیرِ شہر خودسر،بدمزاج
وہ نہ جانے کیوں ہے مجھ سے بدگماں 
بدگمانی کا نہیں کوئی علاج
شاید اس کو یہ نہیں معلوم ہے 
چار دن کی چاندنی ہے تخت و تاج
دامنِ انسانیت ہے تار تار
کررہے ہیں لوگ ہر سو احتجاج
ہیں بہم دست و گریباں خیر و شر
ہے یہی برقیؔ زمانے کا رواج

Post a Comment