سلیم طاہر
یہ جو اک رستہ مدینے کی طرف جاتا ہے
ڈوبنے والو ! سفینے کی طرف جاتا ہے
کروٹیں خون میں لیتی ہے محبت ان کی
جزبہ اٹھتا ہے تو سینے کی طرف جاتا ہے
جب پلٹتا ہے تو خوشبوؤں سے بھر جاتا ہے
جھونکا جب ان کے پسینے کی طرف جاتا ہے
زایٰرین ، ایسے پہنچتے ہیں بصد شوق وہاں
جیسے متلاشی ، دفینے کی طرف جاتا ہے


نام لیوا ہے اگر ، میرے محمد کا کویء
مرتے مرتے بھی وہ جینے کی طرف جاتا ہے
جب بھی آ جاتا ہے ، نعلین مبارک کا خیال
دل اچھل کرمرا ، زینےکی طرف جاتا ہے
ایسے پڑتی ہے مری ، گنبد ِ خضرا پہ نظر
جیسے پیاسا کویء پینے کی طرف جاتا ہے
بھر دے سینے میں مرے ، ان کی محبت مولا
دل تو بچہ ہے ، نگینے کی طرف جاتا ہے
مرے آقا کی شریعت پہ جو چلتا ہے سلیم
ہر قدم اس کا قرینے کی طرف جاتا ہے




Post a Comment