گیسوئے اردو ابھی منت پذیرِ شانہ ہے 
شمع یہ سودائی دل سوزیِ پروانہ ہے

ایک وقت وہ بھی تھا کہ جب گورنمنٹ پوسٹ گریجوایٹ کالج ساہیوال میں ایک جانب پروفیسر عبدالقیوم صبا، قاضی حبیب الرحمٰن جیسی اساتذہ ہستیاں موجود تھیں تو دوسری جانب لسانیات کے شعبہ میں شفق تاب ہستی پروفیسر انور شبنم دل اپنی بزم سجاتے تھے۔ جہانِ عربی میں پروفیسر ڈاکٹر ضیا الحق کے گرد طلباء کہکشاں سجاتے تھے تو اردو ڈیپارٹمنٹ کی رونقیں پروفیسر ڈاکٹر الف دال نسیم کے دم سے آباد تھیں۔ یہی وہ عظیم الشان ادارہ ہے، جہاں ظفر اقبال، ڈاکٹر خورشید رضوی، ڈاکٹر سعادت سعید، ڈاکٹر محمد امین، عباس تابش، طارق عزیز، ناصر شہزاد اور بے شمار نابغہ روزگار ہستیاں حصولِ علم کے لئے آئے اور اپنے پیچھے ایک شاندار ورثہ، ایک یادگار ماضی چھوڑ گئے۔

وقتاً فوقتاً حفیظ جالندھری، مصطفیٰ زیدی، احسان دانش، مجید امجد، ڈاختر سید عبداللہ، ڈاکٹر عبادت بریلوی، جعفر شیرازی، گوہر ہشیار پوری، مراتب اختر، ڈاکٹر وزیر آغا سمیت کئی نامور شخصیات کالج کے در و دیوار کو اپنی آمد سے رونق بخش چکے ہیں۔

مگر پھر چشمِ فلک نے وہ منظر بھی دیکھا کہ ان رفقائے معظم و جلیسِ مہرباں کے منہ موڑتے ہی ادبی سرگرمیاں بھی روٹھ گئیں۔ وہ در و دیوار، جہاں صبح سے شام تلک محافل جما کرتی تھیں، طلباء و طالبات کی علمی و ادبی پیاس بجھانے کے سامان میسر آتے تھے، وہاں ویرانیوں نے ڈیرے ڈالے۔ کالج کے سابقہ رفیقوں کو بھی کہنا پڑا "یہ وہ کالج تو نہیں، جسے ہم چھوڑ کے گئے تھے۔" یہ بات نہیں کہ کالج خود کفیل نہیں رہا۔۔۔۔ شاید ترجیحات بدل گئیں۔

لیکن یہ سب کب تک چلتا۔۔۔ انسانی ترجیحات کے سرد و گرم دیکھنے کے بعد خلاقِ عالم نے کالج کو پروفیسر اخلاق حسین عارف کی شکل میں مونس و ادب نواز رئیسِ مدرسہ سے نوازا۔ جنہوں نے اپنی ذاتی لگن، شوق اور محنت سے ایک طویل 
عرصے بعد تنقیدی نشستوں کے قیام کی راہ ہموار کیا اور اُس روایت کو زندہ کیا، جو شہرِ غزل کا خاصہ تھا۔

 اکادمیکا لٹریری فورم میں تنقیدی نشست کا پہلا اجلاس پروفیسر اخلاق حسین کی سرپرستی میں ملک انور لائبریری میں منعقد ہوا۔ اجلاس کی صدارت شعبۂ پنجابی سے پروفیسر ڈاکٹر مرزا معین الدین نے کی۔ ان کا ساتھ دیا، اردو ڈیپارٹمنٹ سے پروفیسر افتخار شفیع اور مس حنا جمشید نے۔ اس موقع پر ہسٹری سوسائٹی کے کنوینئر اور اکادمیکا سمیت کالج کی تمام ہم نصابی سرگرمیوں کے روحِ رواں شعبۂ تاریخ سے پروفیسر عمران جعفر بھی موجود تھے۔

اکادمیکا کی پہلی تنقیدی نشست کا باقاعدہ آغاز تلاوتِ کلامِ پاک اور نعتِ رسولِ مقبولﷺ سے ہوا۔ جس کے بعد ابتدائیہ کے طور پر پرنسپل صاحب نے اکادمیکا کی ضرورت اور اجلاس کے مقصد پر روشنی ڈالی۔ انہوں نے کہا کہ تنقیدی نشستوں میں طلباء و طالبات کو زیادہ سے زیادہ اپنے ادبی فن میں مہارت حاصل کرنے اور سیکھنے کا موقع ملے گا۔

سب سے پہلے بی ایس باٹنی  سمسٹر6 کی مریم افتخار نے اپنا افسانہ "کہ آ رہی ہے دمادم صدائے کن فیکون" پڑھ کر سنایا۔ افسانے میں بیٹا اور بیٹی کے درمیان فرق روا رکھنے کے معاشرتی مسائل کو موضوع بنایا گیا۔ محبت اور توجہ کی آرزو کس طرح عورت کو جکڑکر اس کو نفسیاتی طور پر کمتر بنا دیتی ہے اور وہ زندگی کو ہار جاتی ہے، اس تصور کو نہایت خوبصورتی سے بیان کیا گیا۔

اس کے بعد پروفیسر معین الدین نے شرکاء کو تنقید کی دعوت دی۔ پروفیسر مس حنا نے تحریر کو سراہتے ہوئے موضوع اور الفاظ کے چُناؤ کو عمدہ قرار دیا جبکہ اس کی طوالت اور تحریر کے کرداروں کی مضبوطی میں اصلاح کا مشورہ دیا۔ اس کے بعد طلباء و طالبات نے تحریر پر بحث کی اور اپنے اپنے خیالات کا اظہار کیا ، جس میں پروفیسر صاحبان نے اصلاحی کردار ادا کیا۔

دوسری نشست میں ایم ایس سی فزکس سے محمد بلال اعظم نے اپنی غزل پڑھ کر سُنائی، جسے تمام شرکاء نے بے حد پسند کیا۔ اس کے بعد جنابِ صدر نے شرکاء کو تنقید کی دعوت دی اور ہر شعر کو علیحدہ علیحدہ موضوعِ بحث بنایا گیا۔ غزل میں وقت، محبت اور انا کے عنصر کو نہایت شائستگی سے بیان کیا گیا اور ہر شعر اپنے اندر ایک جدت اور کشش لیے ہوئے تھا۔ اس غزل کی تنقیدی نشست میں پروفیسر صاحبان نے مختلف اشعار اور اقوال کی مدد سے اسے مزید دلچسپ اور قابلِ فہم بنایا۔

عرصۂ خواب کے پردے میں چھپا لگتا ہے
وقت درویش کے حجرے کا دیا لگتا ہے
جو بھی رک رک کے چلے تیری تمنا میں بلالؔ
لوگ کہتے ہیں کہ وہ آبلہ پا لگتا ہے

آخر میں پروفیسر عمران جعفر  نے شرکاء کا شکریہ ادا کیا اور انہیں اس نشست کے کامیاب انعقاد پر مبارکباد دی۔

رپورٹ
(فاطمہ بتول۔۔۔بی ایس کیمسٹری)

نوٹ:
گورنمنٹ کالج ساھیوال میں پرنسپل امجد علی آغا کے زمانہ میں غیر نصابی سر گرمیاں عروج پر تھیں،ایک ادبی تنظیم بزم ادب کام کر رہی تھی،اس کے ساتھ ساتھ ایک اور ادبی تنظیم بزم سخن کا اجرا پرنسپل امجد علی آغا کی سرپرستی میں ہواجس کی صدارت راقم(رضاالحق صدیقی)کےذ مہ تھی۔اس کے اجلاسوں میں پہلی بار عباس تابش کو بطور شاعر متعارف کرایا گیا

Post a Comment