ستیا پال آنند
لِمَنِ اُلمُلک؟
کس کا یہ ملک ہے، وہ پوچھتا تھا
کون مالک ہے زمیں کا، مجھے بتلائیں تو
کہتے تھے ملک کا مالک ہے خدا
اب وہ کہتے ہیں کہ ہے ذاتی املاک
ذاتی املاک؟ مگرکس کی ہے؟
آپ کی؟ میری؟ کسی فرد کی یا طائفہ کی؟
کوئی املاک کا مالک بھی تو ہو!
پوچھنے والاکروُبی تھا، مگر
آسماں سے جو بھی اترا تو فرشتہ نہ رہا
صرف انسان .... فقط ایسی دو آنکھوں والا
تھیں فرشتے کی' نہ انسان کی تھیں
اور باہر کی طرف کھلتی تھیں
غور سے دیکھا
میں نے پھر غور سے دیکھا اس کو
خضر؟ الیاس؟ یا ابدال و مقربیں سے کوئی؟
جی نہیں!
ہاڈ اور مانس کا پُتلا ہی تو تھا
میری ہی طرح کا فانی بندہ!
جی ... کہا میں نے ذرا رُک رُک کر
ساری املاک کا مالک تو یقناً ہے، مگر
ہم اسے دیکھ نہیں سکتے ' وہ نادیدہ ہے
تیئس، چوبیس گریڈوں سے کہیں دُور اُوپر
اپنے کتمان میں مخفی ہے، (مگر ظاہر ہے
ان گریڈوں کے توسّط سے تو پہچانتے ہیں )
مالکِ کل ہے وہ اور ناصیہ فرسا ہیں ہم
التجا کرتے ہیں ، سجدوں میں پڑے رہتے ہیں
تیئس چوبیس گریڈوں سے کہیں دُور اوپر
سیڑھیاں چڑھتے ہوئے اپنی عرض داشت اگر!
(گِر نہ جائے کسی سیڑھی سے پھسل کر نیچے)
اُس تلک پہنچے تو پھر اپنی بھی شنوائی ہو!
ایک لمحے کا توقّف ہی تھا' جس میں ۔۔ مَیں نے
اس کو اقطاب کی صورت میں بدلتا پایا
نور کا بقعہ مگر اب بھی اک انسان ہی تھا
دھیمے لہجے میں کہا اس نے.بہت دیکھ لیا
یہ جہاں رہنے کے قابل ہی کہاں تھا پہلے
اب توارواحِ خبیثہ کے لیے ہے موزوں!
میں تو اس ہستیِ  مطلق کی اماں میں ہوں کہ جو
حاضر و ناظرو موجود سمٰوات میں ہے
اور اُس داور و رازق سے تو میرا رشتہ
تیئس چوبیس گریڈوں پہ نہیں ہے موقوف
راست ہے، سیدھا ہے،ہر وقت روا رہتا ہے
یہ کہا نور کے بقعے نے .....
اورپھر لَوٹ گیا!
( ستیا پال آنند )

Post a Comment