شہناز مزمل
میں کھو گئی ہوں مگر اب گمان بولے گا
مکیں بغیر یہ خالی مکان بولے گا
یہ خامشی تو مری ذات کا حوالہ ہے
میں گم ہوں عشق میں میرا گیان بولے گا
تمازتوں سے بچاتا جو ماں ہے ممتا ہے
یقیں دلانے کو ہر سائبان بولے گا
سفینہ لانے کو ساحل پہ جاں سے کھیلا ہوں
ہر ایک ٹوٹا ہوا بادبان بولے گا
زمانے بھر کی سمیٹی ہے تیرگی شب نے
ملے گی جب بھی زباں آسمان بولے گا
جو میری روح مرے جسم و جاں میں بستا ہے
وہ آج تیرے میرے درمیان بولے گا
اگرچہ میرا جنوں مجھ کو بے خبر کردے
زمین بولے گی سارا زمان بولے گا

Post a Comment