گیارہ ستمبر کے آنجہانی لوگوں کی یادگار


ورلڈ ٹریڈ سنٹر کے بارے میں سن رکھا تھا کہ اپنے زمانے میں دنیا کی بلند ترین عمارت تھی۔ایک ہزار تین سو فٹ بلند،ایک سو دس منزلہ عمارت تصاویر میں آسمان سے باتیں کرتی محسوس ہوتی تھی۔ایسا کوئی وسیلہ نا تھا کہ ایسی شان و شوکت والی شاندار عمارت دیکھ سکیں۔کچھ کارِ روزگار کی مجبوری اور کچھ قلتِ زر ہمیشہ ایسے معاملات میں آڑے آتی رہی،وہ تو اللہ بھلا کرے عدیل کا کہ ہمیں اس نے دنیا کے بہت سے ممالک کی سیر کرا دی۔
ون ورلڈ ٹریڈ سنٹر ، نیویارک

ورلڈ ٹریڈ سنٹر کی عمارت یا عمارتوں کا مجموعہ کہتے ہیں کہ 16ایکڑ پر بنی ہوئی تھیں،اسے امریکی آرکیٹیکٹ Miniru Yamasakiنے ڈیزائین کیا تھا اور اس کے تخلیق کار کا دعویٰ تھا کہ یہ عمارت اتنی مضبوط ہے کہ اسے توڑنے یا گرانے کا سوال ہی پیدا نہیں  ہوتا۔
تخلیق کار کا دعویٰ کچھ غلط بھی نا تھا کیوں کے اس نے اپنے وقت کی بلند ترین اور آٹھویں عجوبے،، ایمپائر اسٹیٹ بلڈنگ سے سن 1945میں ایک سپر سانک جیٹ طیارے کے ٹکرانے اور اس سے ہونے والے اوپری تین منزلوں کے نقصان کو بھی مدِ نظر رکھا تھا۔لیکن نیویارک کے لوگوں نے تخلیق کار کے دعویٰ کو غلط ہوتے اور قیامتِ صغرا ء بپا ہوتے دیکھی۔یہ گیارہ ستمبر 2001کی صبح پونے نو بجے کا وقت تھا جب ورلڈ ٹریڈ سنٹر میں کام کرتے لوگوں نے جیٹ طیاروں کو اپنی جانب بڑھتے اور ٹاوروں سے ٹکراتے دیکھاور دونوں ٹاور دیکھتے ہی دیکھتے زمیں بوس ہو گئے۔
سرکاری اعلانیے کے مطابق،چار جیٹ طیارے القاعدہ سے تعلق رکھنے والے ہائی جیکروں نے اغوا کئے دو طیارے ورلڈ ٹریڈ سنٹر کے ٹاوروں سے ٹکرا دئیے،ایک طیارہ پینٹاگون پر گرا دیا اور ایک کو امریکی حکام نے مار گرایا۔اس حملے میں اس کمپلیکس کی دوسری تنصیبات کو بھی نقصان پہنچا،اسی حادثے میں تکلیف دہ عمل یہ تھا کہ2763افراد لقمہِ اجل بن گئے۔
اس واقعہ کو14برس بیت گئے تھے جب ہمیں امریکہ یاترا کا موقع ملا،ہمیں اس وقت بھی اور آج بھی اس سانحہ پر افسوس ہے اس لئے نہیں کہ ایسی عظیم الشان عمارتیں تباہ ہو گئیں بلکہ اس لئے کہ ہزاروں افراد لقمہِ اجل بن گئے اور انسانی جان کی تلافی ممکن نہیں ہے،یہ ہمارا احساس ہے کہ انسانی جان  کا زیاں کہیں بھی نہیں ہونا چاہیئے،لیکن انسان کیا سے کیا بن جاتا ہے وہ خود بھی مر جاتا ہے اور ہزاروں افراد کو بھی اپنے ساتھ لے جاتا ہے،یہ واقعہ چاہے ورلڈ ٹریڈ سنٹر پر رونما ہو یا چشم زدن میں ہیرو شیما ناگاساکی میں لاکھوں افراد کے لقمہِ اجل بن جانے کا ہو یاافغانستان میں وقوع پذیر ہوا ہو۔بے گناہ افراد کو  موت کے گھاٹ اتارنے والوں کو تو شاید اس بات کا احساس بھی نا ہو کہ وہ کیا کر رہے ہیں۔
یہ بات یا شاید اسے جذبات کا اظہار کہنا چاہیئے جو صفدر صدیق رضی نے اکتوبر 2001میں  ماہنامہ تخلیق میں شائع ہونے والی اپنی تخلیق میں کیا۔صفدر صدیق رضی نے اس واقعہ کو جس طرح محسو س کیاوہ شاید دنیا بھر میں جنگ کے سیاہ بادلوں کے نتیجے میں مرنے والوں کے لواحقین  کے جذبات کی ترجمانی ہے۔
ورلڈ ٹریڈ سنٹر
زمانے کی قیادت کرنے والو
خلق سے بیوپار
انسانوں سے کاروبار کر کے
تم نے دیکھا ہی نہیں انسانیت سے پیار کرکے
ساری دنیا کو تضارت گہ بنا کر
حرص کیلالچ گہ بنا کر
آؤ اور دیکھو
کہ دنیا کی تجارت گاہ شعلوں میں گھری ہے
آدمی جو آرزو ہے،پیار ہے
مدت سے جنسِ قریہ و بازار ہے
آخر اسے بے قدروپائمال کر کے
نذرِ استحصال کر کے
بھول بیٹھے ہو کہ سیلِ ظلم جب حد سے گزرتا ہے
تو صبرواستقامت کی چٹانوں سے وہ ٹکرا کر پلٹتا ہے
انہی سفاک آنکھوں اور ہاتھوں کی طرف
مانندِ سیل آتش و آہن جھلساتا ہے
ہیروشیما کے ایک تباہ شدہ حصے کو جاپان نے آئندہ نسلوں کے لئے محفوظ کر لیا ہوا ہے کیونکہ یہ ایک مفتوح قوم تھی لیکن امرکہ ایک فاتح اور دنیا پر حکمرانی کرنے والی قوم بن کر رہنا چاہتی ہے،وہ اس  سانحہ سے اپنی جگ ہنسائی نہیں چاہتی جتنا ماتم انہوں نے کرنا تھا وہ کر لیا اب  وہ ماتم کروانے کے در پہ ہے۔اس تباہ شدہ حصے پر اب  امریکی نہیں آتے صرف سیاح آتے ہیں۔
اس نے اس جگہ کو جاپانیوں کی طرح محفوظ نہیں کیا بلکہ اسی مقام پر ایک نیا ورلڈ ٹریڈ سنٹر کی تعمیرِ نو کا کام شروع کر دیا ہے بلکہ اس کا بیشتر حصہ تعمیر بھی کر لیا ہے۔فرق صرف یہ ہے کہ پہلے یہ کمپلیکس دو ٹوئن ٹاوروں سمیت 7عمارتوں پر مشتمل تھا،اب یہ پانچ آسمان سے باتیں کرتے ٹاوروں کے ساتھ ایک میموریل پارک اور میوزیم پر مشتمل ہے۔
اس روز جب ہم نے مجسمہِ آزادی  جانا تھا تو ہم صبح ہی صبح برکلین سے نکل آئے تھے۔مجسمہِ آزادی کے  جزیرے پر کرنے کو کچھ بھی نہیں ہے،آپ یہاں آتے ہیں کچھ سیر کرتے ہیں،تھوڑی دیر مجسمے کو سر اٹھا کر دیکھتے ہیں،اس کے گرد حیرت زدہ آنکھوں کے ساتھ پھرتے ہیں،لیموں پانی کا گلاس ختم کرتے ہیں،دوچار سلفیاں بناتے ہیں اور اگر کوئی ساتھ ہے تو اسے تصویر کھینچنے کے لئے کہتے ہیں،پھر واپسی کے لئے فیری میں آ بیٹھتے ہیں۔ اور بس، اتنا سا ہے مجسمہِ آزادی کے جزیرے کا سفر۔اس  لئے وہاں اتنا وقت بھی نہیں لگا جتنا وہ تک پہنچنے اورجامہ تلاشی میں صرف ہوا تھا،اس لئے ابھی دوپہر ہی تھی چبھنے والی دھوپ کے ساتھ،آپ کو پسینہ تو نہیں آتا لیکن دھوپ اپنا احساس بہرحال کرا دیتی ہے۔واپسی ہماری بیٹری پارک میں ہی ہوئی جو بذاتِ خود ایک سیر گاہ ہے،اس لئے وہاں تھوڑا وقت گذارنا ضروری تھا کیونکہ عنایہ کے لئے مجسمہِ آزادی پر کچھ نہیں تھا اس لئے ہم نے تھوڑی دیر کے لئے اسے وہاں بھاگنے دوڑنے دیا،وہاں ایک بینچ پر بیٹھے بیٹھے میں نے عدیل سے کہا 
،، ورلڈ ٹریڈ سنٹر بھی تو بیٹری پارک کے گردو نواح میں کہیں ہے وہاں چلتے ہیں،،
،، جی پاپا واپسی پر گراونڈ زیرو پر تھوڑی دیر رکتے ہوئے جائیں گے،،عدیل نے ورلڈ ٹریڈ سنٹر کا لفظ اپنے آئی فون میں گوگل میپ کے حوالے کرتے ہوئے کہا،
،،یار میں ورلڈ ٹریڈ سنٹر کی بات کر رہا ہوں،تم،،گراونڈ زیرو،، کئے جا رہے ہو،، 
میں نے کہا
،،پاپا، ورلڈ ٹریڈ سنٹر کی جگہ کو اب گراؤنڈ زیرو ہی کہتے ہیں،وہاں اب میموریل پارک اور میوزیم بنا دیا گیا ہے،، عدیل نے جواب دیا
،،اچھا،لیکن میں نے تو سنا تھا کہ وہاں دوبارہ ٹریڈ سنٹر تعمیر کر دیا گیا ہے،، میں نے اپنی معلومات کے مطابق کہا۔
،، جی سنا تو میں نے بھی ہے کہ وہاں تباہ ہونے والی عمارتیں دوبارہ تعمیر کی جا رہی ہیں ایک نیا ٹاور بھی بنا ہے جسے فریڈم ٹاور کہتے ہیں لیکن جہاں ورلڈ ٹریڈ ٹاور تھا وہاں میموریل بنا دیا گیا ہے،،عدیل نے کہا
پھر کہنے لگا مجھے اتنا عرصہ ہو گیا امریکہ آئے لیکن نیویارک پہلی بار آیا ہوں اتنی فرصت  سے آپ لوگوں کے ساتھ،ورنہ کام سے فرصت ہی نہیں ملتی کہ نکل سکوں۔چلیں چل کر دیکھ لیتے ہیں کہ وہاں کیا کیا تھا اور کیا کیا دوبارہ بن گیا ہے۔کیونکہ میرے لئے بھی سب کچھ نیا ہے،،عدیل نے کہا
گاڑی کے پاس پہنچ کر عدیل نے آئی فون میں ورلڈ ٹریڈ سنٹر کا پتہ فیڈ کیا تو حیرانی سے بولا،،ارے یہ تو یہاں سے بہت ہی قریب ہے،گاڑی یہیں پارک رہنے دیتے ہیں،پیدل ہی چلتے ہیں۔بیچ بیچ میں سے جلدی پہنچ جائیں گے،ویسے آپ تھکیں گے تو نہیں پیدل چل کر،،
،،ارے نہیں تھکنا کیسا،چلو دیر کس بات کی ہے،، میں نے کہا
ورلڈ ٹریڈ سنٹر جو پہلی بار سن 1973میں لوئر مین ہاٹن میں تعمیر ہوا 7عمارتوں پر مشتمل ایک کمپلیکس تھا جس کی نمایاں خصوصیت اس کے آسمان سے باتیں کرتے ہوئے دو شاھکار ٹوئن ٹاور تھے۔اپنی تعمیر کے وقت ٹاور نمبر ایک،1368فٹ جبکہ ٹاور نمبر دو کی اونچائی1362فٹ تھی۔ورلڈ ٹریڈ سنٹر کی یہ ٹوئن ٹاور بلڈنگ سن1973میں دنیا کی بلند ترین عمارت تھی۔نیویارک کے فنانسل ڈسٹرکٹ میں واقع یہ کمپلیکس 13,400,000مربع فٹ آفس جگہ کا حامل تھا۔گیارہ ستمبر 2001میں یہ کاروباری شاھکار تخریب کاری کے نتیجے میں زمین بوس ہو گیا تھا اب یہی شاھکار دوبارہ تعمیر کیا جا رہا ہے۔لیکن اس بار یہ سات عمارتوں کی بجائے پانچ بلندقامت عمارتوں پر مشتمل ہے جس میں نمایاں 104 منزلہ ون ورلڈ ٹریڈسنٹر کی عمارت ہے جو اب امریکہ کی بلند ترین جبکہ دنیا کی بلند ترین عمارتوں میں چھٹے نمبر پر ہے۔سن 2014میں اس کی تعمیر اگرچہ مکمل ہو گئی تھی لیکن اسے گذشتہ سال کھولا گیا ہے۔ اسے سابقہ ورلڈ ٹریڈ سنٹر کے شمالی ٹاور کی جگہ تعمیر کیا گیا ہے،اسے فریڈم ٹاور کا نام دیا گیا تھا لیکن سن 2009میں ہی جب یہ ابھی زیرِ تعمیر ہی تھا اسے ون ورلڈ ٹریڈ سنٹر کا نام لوٹا دیا گیا۔اس ٹاور کی بلندی اس کے انٹینا کی اونچائی سمیت 1776فٹ ہے اتنی بلندی جان بوجھ کر رکھی گئی ہے کیونکہ 1776وہ سن ہے جب امریکہ کی آزادی کی قرارداد پر دستخط ہوئے تھے،یہی سن مجسمہِ آزادی کے ہاتھ میں پکڑی ہوئی کتاب پر بھی درج ہے۔
عدیل نے ہمیں اس میموریل پارک کے پاس لا کھڑا کیا جہاں ورلڈ ٹریڈ سنٹر کے عظیم الشان آسمان سے باتیں کرتے دو ٹاور اپنی عظمت کی کہانی دنیا بھر کے سیاحوں کو سنایا کرتے تھے،آج وہ جگہ ایک میدآن کی شکل اختیار کر چکی ہے،یہ وہی جگہ ہے جہاں ہزاروں افراد زندگی سے بھرپور جدوجہد میں ہمہ تن مڈروف رہتے تھے،یہیں وہ عمارت تھی جس کی ایک سو چھ اور ایکسو ساتویں منزل پر وہ ریسٹوران تھا جو،،ونڈو آف دی ورلڈ،، کہلاتا تھا،وہاں روزانہ  دو؛اکھ سیاحوں کی آمدورفت رہتی تھی۔میں اس مقام پر اپنا سر آسمان کی جانب کئے ورلڈ ٹریڈ سنٹر کی اونچائی کو اپنے تصور میں لانے کی کوشش کر رہا تھا کہ عدیل نے میرے قریب آتے ہوئے کہا کہ اس طرح تو آپ کچھ بھی محسوس نہیں کر پائیں گے۔جو چیز موجود ہی نہیں اس کی بلندی کا اندازہ ممکن ہی نہیں ہے۔میں نے اپنی سعیِ لاحاصل ترک کر دی اور جنگلے سے ٹیک لگا کر کھڑا ہو گیا شاید یہ میرا خاموش خراج تھا ان آنجہانی افرد کے لئے جو اس دھشت گردی کی جنگ میں ناحق روئی کے گا لوں کی طرح اڑ گئے تھے۔ 

2 تبصرے

ایک تبصرہ شائع کریں