آفتاب اکبر
جانے کیوں لوگ سچ سمجھتے ہیں
میں تو یوں ہی خیال لکھتا ہوں 
میرے لفظوں میں جھوٹ شامل ہے 
لوگ کہتے کمال لکھتا ہوں
زندگی کیا ہے خود بتاتا ہوں 
خود ہی اس کو سوال لکھتا ہوں 
ویسے اس پہ میں جان دیتا ہوں 
لیکن اس کو وبال لکھتا ہوں
جسے کہتا ہوں خود محبت میں
خود ہی اس کو زوال لکھتا ہوں
کبھی اسکو میں وآر کہتا ہوں 
کبھی اسکو میں ڈھال لکھتا ہوں
کبھی کہتا کہ مثل صحرا ہوں 
کبھی خود کو نہال لکھتا ہوں
کیوں سمجھتے ہو تم اسے اپنا 
جب بھی اپنا میں حال لکھتا ہوں ·

Post a Comment