انور زاہدی
ا
کون دکھلائے گا اب حرف و معنی کے طلسم
جُوں خزاں آثار باغوں پر اُمڈتی ہو ہوا
جس طرح خالی صداوں سے ہوئیں سب بستیاں
جس طرح ٹھنڈی ہواوں میں شجر ہلنے لگے
جُوں لہو رنگ ہوگیا منظر نظر کے سامنے
سُرخ سے پھر سُرخ تر سارے نشاں ہوتے گئے
کس طرح سبزہ در و دیوار پر اُگنے لگا
کس طرح مُجھ کو ترے غم کی خبر نے ڈس لیا
کیوں فصیلیں خاک و باراں کی بنائیں ذات پر
کس طرح آخر مکان خاک میں گھر کر لیا
مُلک پر آسیب کا سایہ ہے بتلائے گا کون
کون تیرے بعد لفظوں کے جلائے گا چراغ
اب طلسم شاعری کا کون پھُونکے گا فسُوں

Post a Comment