ایمپائر اسٹیٹ بلڈنگ


اس روز  جب ہم برکلین سے مین ہاٹن کے لئے روانہ ہوئے تو ہمارا ارادہ ایمپائر اسٹیٹ بلڈنگ دیکھتے کا تھا۔ہمیں بتایا گیا تھا کہ ایمپائر اسٹیٹ بلڈنگ دیکھنے میں اتنا ٹائم نہیں لگتا جتنا ٹائم اس بلڈنگ میں داخلے کے لئے لمبی قطاروں میں دل تھام کر کھڑے ہونے میں ضائع ہوتا ہے۔
عدیل جب گاڑی میں بیٹھتا ہے تو اپنے آئی فون میں گوگل میپ اوپن کر لیتا ہے۔گوگل میپ میں بول کر بھی ہدایات دی جاتی ہیں۔گوگل کی ماسی(گائیڈ) وقفے وقفے سے بولنا شروع کر دیتی ہے۔آج جب عدیل نے ایمپائر اسٹیٹ بلڈنگ کا پتہ فیڈ کیا تو برکلین سے مین ہاٹن تک کا راستہ نقشے کی صورت سامنے آ گیا،گوگل کی یہ ماسی اتنا لیفٹ رائیٹ کر رہی تھی کہ میرا سر چکرا گیا لیکن عدیل بڑے اطمینان اور خاموشی سے اس کی ہدایت پر عمل کر رہا تھا۔ہمم پہلے بھی برکلین سے مین ہاٹن آئے تھے لیکن اس بار یہ نیا ہی رستہ تھا۔میں نے عدیل سے پوچھا،
،،ہر بار نیا رستہ،اس طرح بھٹک نہیں جاتے، ہر دفعہ نئے راستے سے آنا،غلط بھی تو ہو سکتا ہے،،
عدیل ہنسنے لگا،پھر کہنے لگا یہ دو جمع دو چار کی طرح ہے،آپ کو میرے ساتھ پھرتے اتنے دن ہو گئے ہیں، کبھی اس نے بھٹکایا؟۔
میں نے کہا
،، ابھی تک تو ایسا نہیں ہوا لیکن ہو تو سکتا ہے،،
عدیل کہنے لگا
،،پاپا،ایسا کبھی ہوا  تو نہیں،اس میں کسی جگہ پہنچنے کا ہر ممکنہ راستہ فیڈ شدہ ہے۔یہ ٹریفک کے حساب سے صاف راستوں کا تعین کر کے آپ کو منزل پر پہنچا ہی دیتے ہیں،اسی لئے ہر با رراستہ مختلف ہوتا ہے۔،،

باتوں ہی باتوں میں کافی سفر گذر گیا،، گوگل کی ماسی،، نے بیالسویں سٹریٹ اور میڈیسن ایونیو سے گذرنے کا لیفٹ یا شاید رائیٹ اشارہ کیا۔ایک قدیم سی بلڈنگ سامنے سے گاڑی کی طرف آتی محسوس ہوئی۔
،، ارے اس بار یہ ہمیں گرینڈ سنٹرل ریلوے اسٹیشن کے راستے سے لے آئی آپ کی گوگل کی ماسی،عدیل نے ہنستے ہوئے کہا
،،یہ دنیا کا سب سے بڑا ریلوے اسٹیشن ہے،یہ اسی کی عمارت ہے۔ہم اس کے بائیں طرف سے ہو کر گذریں گے،، عدیل نے بتایا۔
،،کمال ہے دنیا کی سب،سب سے بڑی چیزیں امریکہ میں پائی جاتی ہیں،، میں نے کہا۔
،،یہ بات کسی حد تک درست ہے لیکن وقت کے ساتھ ساتھ یہ اعزازات  امریکہ کے ہاتھ سے نکلتے جا رہے ہیں لیکن گرینڈ سنٹرل ریلوے اسٹیشن کے بارے میں جو اعزاز اسے حاصل ہے وہ اب بھی امریلہ ہی کے پاس ہے،،عدیل نے میری بات کا جواب دیا۔
،،بڑی معلومات حاصل کر لی ہیں،،میں نے کہا۔
،،پاپا جب یہاں رہنا ہے تو معلومات تواکھٹی کرنی پڑتی ہیں نا،یہاں مختلف ٹیسٹوں کی تیاری کے لئے معلومات  درکار ہوتی ہیں۔بہت محنت کی ہے ریسرچ کرنے میں،، عدیل نے سامنے راستہ دیکھتے ہوئے کہا۔
،،وہ تو تیری باتوں سے لگ رہا ہے،،میں نے اس کی  طرف محبت بھری نظروں سے دیکھتے ہوئے کہا۔
،،یہ ریلوے اسٹیشن بھی دیکھنے کی چیز ہے، میں اسے دکھا تو دیتا لیکن پھر ہم ایپائر اسٹیٹ بلڈنگ نہیں دیکھ سکیں گے۔ اب کیا کہتے ہیں آپ یہاں رکیں یا چلیں؟،،عدیل نے کہا
،، چلو یار ایمپائر اسٹیٹ بلڈنگ دیکھتے ہیں،راستے میں اسٹیشن کے بارے میں تم معلومات شیئر کر دینا۔
ٹھیک ہے،کہہ کر عدیل نے گاڑی آگے بڑھا دی۔
،، پاپا،یہ جو اسٹیشن ہے ہے یہ دنیا کا سب سے بڑا اسٹیشن ہے، یہ تو میں بتا ہی چکا ہوں،اس میں 123ریلوے لائینیں ہیں،یہ دو منزلہ ہے۔اس کی اوپری منزل  پر 66جبکہ نیچے والی منزل پر57لائینیں ہیں۔یہ ریلوے اسٹیشن1913میں مکمل ہوا۔اس اسٹیشن پر رش کی وجہ سے قیامت کا سا سماں ہوتا ہے صبح اور شام کے وقت یہ ہجوم بہت بڑھ جاتا ہے۔تعلیمی اداروں میں آنے جانے والے طلباء ، دفتروں میں کام کرنے والے،ذاتی کاروبار کے لئے مختلف جگہوں پر آنے اور جانے والوں کے علاؤہ سیاحوں کا بھی تانتا بندھا رہتا ہے۔ہم گاڑی پر آئے ہیں میری لینڈ سے یہاں لیکن اگر ہم ٹرین  سے آتے تو ہم بھی انہی لوگوں میں شامل ہوتی جو ٹرین کو استعمال کرتے ہیں۔لاکھوں لوگ روزانہ اس ریلوے کے نظام کو استعما کرتے ہیں،عدیل اتنا کہہ کر خاموش ہو گیا کیونکہ ہم اس جگہ کے قریب پہنچ گئے جہاں ایمپائر اسٹیٹ بلڈنگ واقع ہے۔لیکن ہمیں پارکنگ بڑی تلاش کے بعد ملی۔سڑک کے کنارے ایستادہ مشین میں عدیل نے سکے ڈالے،اس مشین کا سرخ نشان سکے ڈالتے ہی سبز ہو گیا،امریکہ میں پارکنگ ایک بہت بڑا مسئلہ ہے اگر غلط جگہ پارکنگ کر دی تو گاڑی وہاں سے اٹھالی جاتی ہے اور جرمانہ بھی خاصا ہوتا ہے۔پاکستان کی طرح نہیں کہ جہاں جی چاہا گاڑی کھڑی کی اور چل دئیے۔
وہاں سے ہم ففتھ ایوینو کی تیتیسویں سٹریٹ پر جا پہنچے جہاں ایمپائر اسٹیٹ بلڈنگ واقع ہے۔یہ زمین سے چھت تک1250فٹ اونچی عمارت ہے جسے امریکن انجمن برائے شہری انجینئرز نے جدید دنیا کے7عجائبات میں سے ایک قرار دیا ہے۔اتنی اونچی عمارت بنانے کا پلان امریکن پالیٹیشن الفریڈ سمتھ نے بنایا۔اس کا سٹیل فریم اتنا مضبوط ہے کہ 1945 میں ایک جہاز حادثاتی طور پر اس سے  ٹکرا گیا تھا جس سے اس کی صرف اوپر کی دو منزلوں کو نقصان کو نقصان پہنچا۔
سن1931میں اپنی تکمیل سے سن1973 میں ورلڈ ٹریڈ سینٹر کی تعمیر تک یہ عمارت دنیا کی بلند ترین عمارت کا درجہ رکھتی تھی۔ورلڈ ٹریڈ سنٹر کی 11ستمبر2001میں تباہی یہ ایک بار پھر نیویارک سٹی کی بلند ترین عمارت بن چکی ہے لیکن دنیا کی نہیں کیونکہ دنیا میں بہت بہت بلند عمارتیں تعمیر ہو چکی ہیں۔ایمپائر اسٹیٹ بلڈنگ کی102منزلیں ہیں۔
فلموں میں اس عمارت کو متعدد بار دیکھا تھا،میں نے سینما میں فلمیں دیکھنا بہت عرصہ ہوا چھوڑ دی تھیں لیکن کہا گیا کہ،، کنگ کانگ،، آئی ہے،بڑی تھرلنگ مووی ہے لیکن اسے دیکھنے کا مزا سینما میں ہی ہے۔سو ہم نے سینما میں کنگ کانگ دیکھی۔اس فلم کا اختتام اسی ایمپائر اسٹیٹ بلڈنگ کی چھت پر فلمایا گیا ہے جہاں کنگ کانگ گوریلے کو مارا جاتا ہے۔آج وہی ایمپائر اسٹیٹ بلڈنگ میرے سامنے تھی۔
ہم نے سڑک پار کی اور ایمپائر اسٹیٹ بلڈنگ کے اندر داخل ہو گئے۔ایک بلند چھت تلے سرخ پتھر سے آراستہ ایک راستہ تھا،ایک لابی تھی جس کے ماتھے پر اس بلڈنگ کی ایک شبیہ نقش تھی اور اس کی آخری منزل کے گرد روشنی کا ہالہ تھا ویسا ہی ہالہ جو گرجا گھروں میں ننھے فرشتوں کے سروں کے گرد روشن ہوتا ہے۔اس شبیہ کے نیچے ایک ڈیسک کے پیچھے ایک خاتون سیاحوں کو معلومات فراہم کر رہی تھی۔
اس کی معلومات کی روشنی میں ہم دوسرے منزل پر پہنچے جہاں ٹکٹ گھر تھا۔یہاں عدیل نے ٹکٹ خریدے اور ہم اوپر جانے کے لئے لفٹوں لی جانب بڑھے،ہم آپس میں باتیں کر رہے تھے کہ ایسے ہی ڈرایا ہوا تھا کہ بہت ٹائم لگتا ہے لیکن اتنی جلدی کام ہونے کی ہمیں توقع نہیں تھی،لیکن یہ ہماری  غلط فہمی تھی کیونکہ ہم سے آگے ایک طویل کیو تھی لفٹوں تک پہنچنے کے لئے اور کیوں نا ہوتی،اسی روزانہ کے رش کی بنا پر کہا جاتا ہے کہ کوئی چالیس،پچاس لاکھ سیاح ہر سال اس عمارت کی سیر کو آتے ہیں،ہم نے اس طویل قطار کو دیکھ کر ایک دوسرے کی طرف دیکھا،عدیل نے کندھے اچکائے کہ اب کیا کیا جا سکتا ہے۔آئیں ہیں تو دیکھ کر ہی جائیں گے۔لفٹوں سے پہلے تلاشی کا ویسا ہی مقام آ گیا جیسا مجسمہِ آزادی پر جاتے ہوئے پیش آیا تھا۔کہتے ہیں ایسا پہلے تو نہیں ہوتا تھا لیکن جب سے اسلامک دہشت گردوں نے ورلڈ ٹریڈ سنٹر کو تباہ کیا تھا اور ساتھ ہی امریکہ کی دیگر اہم تنصیبات کو بھی تباہ کرنے کا اعلان کیا تھا اس وقت سے امریکہ کو بہانہ مل گیا اور انہوں نے اپنی تنصیبات کی حفاظت کے لئے سیر کے لئے آنے والوں کی تلاشی کا نظام رائج کر دیا۔ہمیں شاید ابھی اور وقت لگ جاتا لیکن عنایہ کے رونے  نے ہمارا کام آسان کر دیا اور تلاشی لینے والوں نے ہمیں پہلے بلا کر فارغ کر دیا۔سٹولر کو امریکہ میں بڑی اہمیت دی جاتی ہے۔
وہاں سے ہم لفٹوں کی جانب بڑھے،ہم لفٹ میں داخل ہوئے تو اس کے چلنے کا انتظار کرنے لگے لیکن یہ کیا،لفٹ ایک ہزار پانچ فٹ کی بلندی  پر واقع 86ویں منزل پر ایک منٹ سے بھی کم وقت میں پہنچ گئی۔ہم اس منزل پر اتر گئے،وہاں ایک ریستوران،صاف ستھرا  ماحول،رنگ برنگی میزیں اور کرسیاں، سیاحوں کی ایک بڑی تعداد پہلے سے وہاں موجود تھی۔باہر کی جانب دیکھا تو آس پاس کچھ بھی نہیں تھادوسری عمارتیں بہت نیچے رہ گئیں تھیں۔سیاح  شیشے کے پار نیویارک کو دیکھ رہے تھے،ایک طرف ٹھاٹھیں مارتا ہوا سمندر تھا، دور سٹیچو آف لبرٹی ایک ننھی سی گڑیا کی مانند نظر آ رہا تھا۔ 
مجھے بلندی سے خوف آتا ہے کسی آسمان سے باتیں کرتی عمارت کی انتہائی بلندی سے نیچے جھاک کر نہیں دیکھ سکتا،نیچے نظر ڈالت ہوئے مجھے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ نظر کے ساتھ میں بھی نیچے گر رہا ہوں۔امریکہ کی اس پہلی یاترا میں بچہ لوگ نے مجھے آسمان سے باتیں کرتے برقی ہندولے پر تو ساتھ بیٹھا لیا تھا لیکن میں نے توبہ کی تھی کہ ایسی عمارتوں میں ایسی جگہ نہیں جاؤں گا جہاں اوپر سے نیچے جھانکنا پڑے۔ لیکن آج پھر اپنا وعدہ توڑ کر بچوں کے ساتھ پھر اتنی بلندی پر آ گیا تھا اور شیشے کی چار دیواری سے نیچے بھی جھانگ رہا تھا۔یہ الگ بات کہ خوف کے احساس سے میری ٹانگیں کانپ رہی تھیں اور میری ریڑھ کی ہڈی میں سرسراہٹ بڑھ رہی تھی۔ 




Post a Comment