علم کا معبد

نیویارک پبلک لائبریری


ہم ایک بار پھر نیویارک میں تھے۔ہر روز بلا سوچے سمجھے برکلین سے نکل آتے تھے پھر کار کو کسی مناسب جگہ پارک کر کے جو بھی قابل دید مقام سامنے آتا اسے ایک نظر ضرور دیکھ لیتے اور اگر ٹائم ہوتا تو کسی اور مقام کی طرف چل دیتے تھے۔اس روز بھی یہی ہوا،کار پارک کرکے ہم پیدل ہی چل پڑے،چلتے چلتے کرسٹل پارک کے عقب میں جا نکلے۔وہیں ایک وسیع اور شاندار عمارت نظر آئی،جدید طرز کی اتنی بڑی عمارت دیکھ کر حیرت  بھی ہوئی اور خوشی بھی۔ہم نے سوچا دیکھیں تو سہی کہ یہ عمارت کیا ہے۔اس جگہ بھی دوسری جگہوں کی طرح لوگوں کا ہجوم تھا،معلوم ہوا کہ یہی نیویارک کی پبلک لائبریری ہے۔اتنی بڑی لائبریری تو ہم نے کبھی خواب میں بھی نہ دیکھی تھی۔لائبریری کو دیکھنا تو تھالیکن ہمارا آج یہاں آنے کا پروگرام نہیں تھا۔عدیل کہنے لگا آپ نے یہاں آنا تو تھا ہی  اور اب جب کہ ہم آ ہی گئے ہیں تو 

آپ 
اندر چکر لگا لیں،عنایہ اندر، نا آپ کو کچھ دیکھنے دے گی اور نا ہمیں۔اس لئے آپ ہو آئیں ہم باہر ہی گھومتے ہیں آپ واپس آئیں گے تو کہیں اور چلیں گے۔
یہ لائبریری جدید آرٹ اور فنَ تعمیر کا عجوبہ ہے۔اونچے اونچے سفید ستون جنہیں ایک اونچے چبوترے پر کھڑا کر کے اور اونچا بنایا گیا ہے۔؛ائبریری تک جانے کے لئے بہت ہی کشادہ اور چوڑی سفید پتھر کی سیڑھیاں بنائی گئی ہیں۔اس عمارت کے سامنے دو بڑے بڑے شیر بنائے گئے ہیں۔مقصد تو ان شیروں کا معلوم نہ ہو سکا لیکن یہ شیر عمارت کے سامنے لگ خوبصورت رہے تھے لیکن یہ شیرپاکستان مسلم لیگ کے بالکل نہیں تھے،البتہ ہمارے دوست حکیم سلیم اختر ملک کے بھاٹی گیٹ میں حکیم صاحب کی شیراں والی بلڈنگ کے ضرور لگ رہے تھے کہ کچھ ادبی ادبی سے تھے۔
لائبریری کے باہر سیاحوں، طالب علموں اور دانشوروں کا بہت ہجوم تھا،کچھ لوگ اندر جا رہے تھے،کچھ باہر آ رہے تھے۔لڑکے،لڑکیوں کی ایک بڑی تعداد کشادہ سیڑھیوں پر بیٹھی تھی۔کوئی دوستی کے تقاضے نباہ رہے تھے۔چند ایک سر سے سر جوڑے محبتوں  کے ابواب کھولے رازو نیاز کر رہے تھے۔پیار محبت کا کھلے عام اظہار معاشرتی تقاضوں کا حصہ ہے اس لئے کئی لڑکے لڑکیاں، جوان مرد،عورتیں ان خوبصورت،صاف شفاف سیڑھیوں پر بیٹھے ایسی حرکات میں مصروف تھے جن کے ہم لوگ عادی نہیں ہیں۔لیکن وہاں کوئی ان لوگوں کو دیکھ کر رکتا نہیں ہے اور نا ہی تجسس بھری نگاہ ڈالتا ہے۔وہاں ایک تو لوگ تیزی میں ہوتے ہیں دوسرا اپنے کام سے کام رکھتے ہیں۔ہر طرح کی شخصی آزادی کے اس ملک میں کسی کو کسی پر اعتراض کرنے کا حق حاصل نہیں ہے۔

لائبریری کے بیرونی حصے میں ایک جگہ لکھا ہوا تھا کہ آپ علم پھیلانا چاہیں تو دو ڈالر یہاں ڈال دیں۔اسی جگہ ڈالر ڈالنے کی جگہ بھی بنی ہوئی تھی۔میں سوچ میں پڑ گیا کہ یہ قوم نفسیات کو کتنا سمجھتی ہے،کون ایسا شخص ہو گا جو علم کے فروغ اور کتاب بینی کی عادت ڈالنے کے لئے دو ڈالر ڈال کر اپنا حصہ نہ ڈالنا چاہے گا۔ہزاروں کی تعداد میں روزانہ لوگ یہاں آتے ہیں یقیناََ دو ڈالر ہر کوئی ڈالتا ہو گا۔یہ فنڈ لائبریری کے ہی کام آتا ہو گا،یہی سوچ کر میں نے بھی دو ڈالر نکاکے اور ڈالر ڈالنے کی جگہ میں ڈال دیئے۔
نیویارک پبلک لائبریری دنیا کی بڑی لائبریریوں میں سے ایک ہے،رینکنگ کے اعتبار سے ٖغالباََ دسویں نمبر پر ہے۔لائبریری کی عمارت بہت بڑی اور کئی حصوں میں بٹی ہوئی ہے۔اس میں کروڑوں کے حساب سے کتابیں ہیں۔لائبریری کی وسعت کا اندازہ اس بات سے لگا لیجئے کہ صرف نیویارک اور امریکی تاریخ کے بارے میں تقریباََ ساڑھے تین لاکھ(350,000) کتابیں اور پمفلٹ جبکہ دس ہزار نقشے اور اٹلس موجود ہیں۔یہاں آ کر مطالعہ کرنے والوں کے لئے بڑے بڑے ہال ہیں۔
عدیل وغیرہ عنایہ کا بہانہ کر کے باہر ہی رک گئے تھے اس لئے کہ شاید انہیں کتاب بینی کی عادت نہیں رہی یا انٹرنیٹ پر وہ دنیا جہاں کی ہر چیز کے بارے میں معلومات وہ منٹوں میں تلاش کر لیتے ہیں۔ہماری یہ حالت ہے کہ ہمیں چھپی ہوئی کتاب پڑھنے ہی میں مزا آتا ہے۔پی ڈی ایف میں آئی ہوئی کتاب ہم سے پڑھی نہیں جاتی۔
لائبریری میں ایک بہت بڑا شعبہ ریفرنس کا بھی تھا جہاں علوم تحقیقات، جغرافیہ، معاشیات،سیاسیات اور سائنس،غرضیکہ کوئی ایسا موضوع نہ تھا جس کے بارے میں ایک سے بڑھ کر ایک کتاب موجود نا ہو۔یہ لائبریری نہیں علم کا بیش قیمت خزانہ ہے جس سے ہر کوئی استفادہ کر سکتا ہے۔یہ لائبریری پبلک ہے اور پبلک اس سے مفت فائدہ اٹھاتی ہے۔مجھے ادب کے شعبے کی تلاش تھی خاص طور پر اردو کی کتب کی تاکہ ادب میں مختلف اصناف کے بارے میں کچھ معلومات حاصل کر سکوں۔پھر مجھے ادب کا شعبہ مل گیا لیکن یہاں صرف انگریزی کی کتابیں ہی تھیں انگریزی کبھی میری مرغوب زبان نہیں رہی،شاید اس کی وجہ یہ رہی ہو کہ میرے والداردو،فارسی اور عربی کے ماہر تھے،اس لئے ان زبانوں میں کبھی مار نہیں کھائی،اسی لئے انگریزی لٹریچر کے اس شعبے میں ہم نے بڑی بے دلی سے ریک دیکھنا شروع کئے،نثری نظم  ہند و پاک میں قدم جماتی صنفِ شاعری ہے،غزل سے بیزار،پابند نظم سے الجھتے ادیب اسی صنف میں پناہ ڈھونڈتے نظر آتے ہیں،اسی سلسلے کی کی ایک کتاب نظر آئی۔نام تھا،، لیوز آف گراس،، اس کتاب کے شاعر تھے والٹ وہٹ مین۔ والٹ  وہٹ مین کو امریکہ کا بابائے نثری نظم کہا جاتا ہے۔نیویارک ہی اس کی جائے پیدائش ہے جس علاقے میں اس کی پیدائش ہوئی وہ پورے کا پورا علاقہ اس کے نام سے منسوب ہے،تعلیمی ادارے،لائبریریاں،سڑکیں،یہاں تک کہ اس علاقے میں بننے والا پلازہ کا نام بھی اس کے نام پر رکھا گیا ہے۔

والٹ  وہٹ مین ایک تشکیکی تھا اور خدا پر یقین بہیں رکھتا تھا۔وہ سمجھتا تھا کہ خدا کی کوئی ذات نہیں ہے اس کائنات میں جو علیحدا وجود رکھتی ہو۔ واٹ مین کو انسان دوست کی حیثیت سے یاد کیا جاتا ہے۔وہ اس بات کا بھی قائل تھا کہ ادیب کو اپنے معاشرے  کے ساتھ جڑ کر رہنا چاہیئے۔والٹ  وہٹ مین نے چونکہ امریکہ سے غلامی کے خاتمے کی بھی حمایت کی تھی اس لئے اس حوالے سیاسے شاعرِ جمہوریت بھی کہا جاتا ہے۔والٹ وہٹ مین کی کتاب کے بارے میں پڑھتے ہوئے اس بات کا انکشاف بھی ہوا کہ یہ کتاب جب پہلی بار چھپی تو یہ شاعر کی اپنی کاوش تھی،یہ بات پڑھتے ہوئے ہمیں اپنے ایک افسانہ نگار دوست یاد آ گئے جنہوں نے ہمارے بولتا کالم میں ایک کتاب بارے کالم پڑھتے ہوئے کہا تھا کہ بس واجبی سا افسانہ نگار تھا آپ نے ایسے ہی اسے چڑھا دیا ہے،یہاں تک تو ان کی بات درست کہی جا سکتی ہے کہ ہر شخص کا اپنا نکتہ نظر ہوتا ہے لیکن مجھے اعتراض جب ہوا کہ انہوں نے کہا ایسے لوگ اپنے پاس سے پیسے خرچ کرکے کتابیں کیوں چھپواتے ہیں اور ایسے ادب کا کیا فائدہ ہے اور کیا ایسے ادب کی ضرورت ہے؟اپنے اس دوست کی بات یاد کرتے ہوئے میں سوچ رہا تھا کہ والٹ وہٹ میں نے پہلی بار اپنی شاعری خود نہ چھپوائی ہوتی تو کیا آج اس کا کوئی نام لیوا ہوتا؟ اور کیا وہ آج امریکہ کا بابائے نثری نظم کہلاتا؟
جس وقت ہم لائبریری کی طرف آ رہے تھے تو لائبریری سے متصل ایک اور عمارت نے ہمیں اپنی طرف متوجہ کیا تھا،چند منٹ کے لئے ہم اس میں بھی چلے گئے تھے،یہ امریکہ کے بابائے نثری نظم والٹ وہٹ مین کی یادگار تھی۔امریکیوں کی یہ خاص عادت ہے کہ یہ اپنے اسلاف،اپنے ماضی کو یاد رکھتے ہیں۔
خیر
میں جب لائبریری کے وسیع ہال میں داخل ہوا تو کتا بوں پر جھکے افراد علم کے دیوتا کے حضور سربسجود نظر آئے،میں بھی اس کائنات نما لائبریری کے اس وسیع وعریض ہال کے ایک کونے میں لیوز آف گراس کھول کر بیٹھ گیا۔فال نکالنے کے سے انداز میں میں نے کتاب کو کھولا تو جو نظم سامنے آئی وہ تھی،،ایک بچے نے کہا۔۔گھاس کیا ہے،،
میں نے پہلی نظم تو پوری پڑھ لی،پھر مجھے یاد آیا کہ یہ کتاب تو شاید کتابوں کے انبار میں کہیں پڑی ہے شاید،اس زمانے کی یادگار کے طور پر جب زمانہِ طالب علمی میں ہم بھی شاعری کیا کرتے تھے،اللہ بخشے ہمارے انگریزی کے استاد دلدار پرویز بھٹی صاحب کو کہ جن کا کہنا تھا کہ نظم کہنی ہے تو والٹ  وہٹ مین کی شاعری ضرور پڑھنا،شاعری کا نیا نیا شوق تھا،عروض والد صاحب نے گھٹی میں پلا دیا تھا،شاعری میں انگریزی ادب کی  چاشنی ڈالنے کے لئے اور نظم کا صحیح اسلوب سیکھنے کے لئے،، لیوز آف گراس،، خریدی تھی،جیسا کہ میں نے عرض کیا انگریزی زبان میں کوئی اتنا شغف نہیں رہا سو اس وقت اسے پڑھا لیکن شاعری میں کوئی نکھار نا آ سکا سو اس بھاری پتھر کو چوم کر چھوڑ دیا،آج کوئی چالیس سال بعد پھر وہی کتاب میرے سامنے تھی،اور جو نظم سب سے پہلے میرے سامنے آئی وہ آپ بھی پڑھیئے۔
A Child Said, What Is The Grass?
A child said, What is the grass? fetching it to me with full 
hands;
How could I answer the child?. . . .I do not know what it
is any more than he.
I guess it must be the flag of my disposition, out of hopeful
green stuff woven.
Or I guess it is the handkerchief of the Lord,
A scented gift and remembrancer designedly dropped,
Bearing the owner's name someway in the corners, that we
may see and remark, and say Whose?
Or I guess the grass is itself a child. . . .the produced babe
of the vegetation.
Or I guess it is a uniform hieroglyphic,
And it means, Sprouting alike in broad zones and narrow
zones,
Growing among black folks as among white,
Kanuck, Tuckahoe, Congressman, Cuff, I give them the 
same, I receive them the same.
And now it seems to me the beautiful uncut hair of graves.
Tenderly will I use you curling grass,
It may be you transpire from the breasts of young men,
It may be if I had known them I would have loved them;
It may be you are from old people and from women, and
from offspring taken soon out of their mother's laps,
And here you are the mother's laps.
This grass is very dark to be from the white heads of old
mothers,
Darker than the colorless beards of old men,
Dark to come from under the faint red roofs of mouths.
O I perceive after all so many uttering tongues!
And I perceive they do not come from the roofs of mouths
for nothing.
I wish I could translate the hints about the dead young men
and women,
And the hints about old men and mothers, and the offspring
taken soon out of their laps.
What do you think has become of the young and old men?
What do you think has become of the women and
children?
They are alive and well somewhere;
The smallest sprouts show there is really no death,
And if ever there was it led forward life, and does not wait
at the end to arrest it,
And ceased the moment life appeared.
All goes onward and outward. . . .and nothing collapses,
And to die is different from what any one supposed, and 
luckier.
مجھے اس نظم کوترجمہ کر کے پیش کرنا چاہیئے تھا لیکن میرے ترجمہ کرنے سے شاعرانہ ھسن غارت ہو جاتاجو میں بالکل نہیں چاہتا،ہاں بچے کے حوالے سے مجھے ایزد عزیز کی ایک نظم ،، ڈری ہوئی بازگشت،، یاد آ گئی۔
پیارے بچو
بچپن کوئی دیوار سے لگ کر لوٹنے والی گیند نہیں ہے
مجھ کو تو ان پکی،گلی ہوئی عمروں سے خوف آتا ہے
میں نے تو ان سارے بڑوں کو نا منظور پارسل کی طرح ٹھکرایا ہے
میرا چہرا مت دیکھو
میری روح توتم جیسی ہے
اجلے پھولو
میں نے ان کانٹوں سینکل کر خود کو تم میں گم پایا۔۔اور
تم سب کی پیاری باتوں سے ٹھنڈی ہوا کے جھونکے آئے
لیکن جب ہم بہت سا کھیل کے لمبی گھاس پر گر جاتے ہیں 
تم میں سے کوئی بچہ
دور افق پر نظریں پھنکے
اک پکی،سنجیدہ بات سنا جائے تو
مجھ کو تم سے ڈر لگتا ہے۔۔پیارے بچو
علم کے اس معبد سے نکل کر جب میں برآمدے میں آیا تو ایک دیوار گیر تصویری نقش نظر آیا جس میں حضرت موسیٰ علیہالسلام کو کوہِ طور سے اترتے ہوئے دکھایا گیا ہے،وہ دس حکام کی لوح ہاتھوں میں تھامے ہوئے نیچے آ رہے ہیں،یہ مصوری اگر پاکستان کے کسی ادارے کی دیوار پر ہوتی تو اب تک فساد کھڑا ہو چکا  ہوتا بلکہ اب تک لائبریری ہی جلا دی گئی ہوتی۔لیکن اس تصویری نقاشی کو دیکھتے ہوئے مجھے میرے آقا کا تصور سامنے آ گیا کہ جنگِ بدر میں پڑھے لکھے قیدیوں سے فرما رہے ہیں کہ دس افراد کو وہ کچھ پڑھا دو جو کچھ تم جانتے ہو تو تم آزاد ہو۔میں نے اسی تصور میں آقائے نامدار صل اللہ علیہ وسلم سے فریاد کی کہ میرے ملک کے عوام کو علم و تحقیق کی روشنی میں وہ سیدھا راستہ دکھا جو  یہ قوم بھلا بیٹھی ہے۔

Post a Comment