عدیل کے بنائے ہوئے پروگرام کے تحت سفر کرکر کے کمر تختہ ہو گئی تھی جس پر ہم نے ہاتھ کھڑے کر دیئے تھے کہ اب نیویارک جانے تک کوئی سفر نہیں چند روز آرام اور صرف آرام لیکن ایسا ہو نا سکا۔عدیل کے ایک امریکی دوست کو جب پتہ چلا کہ عدیل کے والدین پاکستان سے آئے ہوئے ہیں تو اس نے ہمیں ہی نہیں شازیہ اور احرار کے علاؤہ اپنی چند دوست فیملییوں کو بھی کھانے پر مدعو کر لیا۔
عدیل نے بتایا کہ اس کا یہ دوست  ورجینیا میں رہتا ہے،وہیں جانا ہے،تین کمروں کے کانڈو میں اس کی رہائش ہے،میں نے بہت انا کانی کی کہ یار ایک تو میری کمر دکھنے لگی ہے سفر کر کر کے،اوپر سے تمہارا یہ غیر مسلم گورا،بھوکا ہی آنا پڑے گا،بھئی میں وہاں کھانا نہیں کھا سکوں گا،پھر وہاں جانے کا کیا فائدہ وغیرہ وغیرہ۔لیکن وہ کہاں ماننے والا تھا ابھی میں کچھ اور کچھ کہنے والا تھا کہ رابعہ اور ہماری بیگم بھی تیار ہو کر آگئیں۔
،،کیا مسئلہ ہے،ابو اور عدیل اور ابو آپ ابھی تک تیار نہیں ہوئے،،
رابعہ نے آتے ہی پوچھا۔
،،بیٹا  میں کہہ  رہا تھا کہ،،ابھی میں نے اتنا ہی کہا تھا کہ رابعہ نے کہا 
،،ابو آپ تیار تو ہو جائیں پھر دیکھتے ہیں،احرار بھائی اور شازیہ باجی بھی تیار ہو کر نکلنے والے ہیں،ابھی فون آیا تھا ان کا،،
ان سب کو تیار دیکھ کر مجھے بھی تیار ہونا پڑا،ہم مسلمان بھی عجیب ہیں نجانے کیا کیا غیر اسلامی باتیں کرتے ہیں لیکن غیر مسلموں کے ہاں کھانا اس لئے نہیں کھا سکتے کہ وہ حلال حرام کی تمیز نہیں کرتے۔
ہم پونے گھنٹے بعدمائیکل کی رہائش گاہ پر پہنچ گئے،مائیکل نے تین چار ہی فیملیوں کو مدعو کیا تھا،
مائیکل کے سیٹنگ روم میں خاصی گنجائش تھی کہ سارے گھر والے اور مہمان آسانی سے وہاں سما گئے۔کھانے میں ابھی کچھ دیر تھی کیونکہ کیٹرر ابھی کھانا لے کر نہیں آئے تھے،مائیکل نے بتایا کہ ہوٹل پر مدعو اس لئے نہیں کیا کہ گھر پر ایک مسلمان کیٹرر سے انتظام کرایا ہے ہماری وجہ سے۔یقین کریں دل ہی دل میں ہمیں بہت شرمندگی محسوس ہوئی کہ ہم کیسا گمان کئے ہوئے تھے اور یہاں معاملہ ہے دوسرا تھا۔
سیٹنگ روم میں کھانا لگنے تک گفتگو ایک سلسلہ شروع ہو گیا۔اس گفتگو میں میں تقریباََ خاموش ہی رہا،عدیل،احرار،مائیکل زیادہ باتیں کر رہے تھے،خواتین علیحدہٰ بات چیت میں مصروف تھیں،کچھ دیر بعد سب ایک دوسرے سے بات چیت شروع ہو گئی،
مائیکل کے فادر نے مجھ سے بات چیت شروع کر دی،انہوں نے عدیل کی تعریف شروع کر دی کہ مائیکل بتا رہا تھا کہ عدیل والدین کا بہت کیئرنگ ہے،یہاں بہت کم ایسا ہوتا ہے۔
،،یہاں بچے والدین کی کیئر نہیں کرتے کیا،، میں نے پوچھا
،،آپ نے صحیح سنا ہے یہاں کے بارے میں۔۔ بچے ماں باپ سے اور والدین بچوں سے بیگانہ ہو جاتے ہیں۔ہر کوئی اپنی زندگی جیتا ہے،آزادی پسند کرتا ہے،یہ رشتوں کا بندھن یہاں ہم امریکیوں کو کم ہی بھاتا ہے۔لیکن مسٹر صادیقی سب لوگ ایک طرح کے نہیں ہیں،مگر الثریت ایسے لوگوں کی ہی ہے جیسا آپ نے سنا لیکن اب بھی یہاں کچھ فیصد لوگوں میں فیملی سسٹم  موجود ہے،،مائیکل کے فادر نے کہا
،،آپ بھی ان چند فیصد میں شامل ہیں،، میں نے ہنستے ہوئے پوچھا
،،آف کورس،،
،،شادی کے معاملے میں تو یہاں ہر کوئی آزاد ہے،، برسوں سے امریکہ میں مقیم احرار نے گفتگو میں حصہ لیتے ہوئے کہا
،، تو کیاآپ لوگ آزاد نہیں،، مائیکل کے فادر نے حیرانی سے پوچھا
،،ہمارے ہاں عام طور پر ارینجڈ میرج ہوتی  ہیں،، میں نے کہا
،،کیا مطلب،، مسز جینٹ جلدی سے بولیں 
،،مطلب یہ کہ پاکستان میں ماں باپ بچوں کے لئے رشتہ پسند کرتے ہیں اور بچے اگر اپنی پسند بتائیں  تب بھی رشتہ ماں باپ ہی طے کرتے ہیں،، میں نے کہا
میری بات سن کر سب حیرانی سے مجھے دیکھنے لگے کچھ دیر بعد مسز جینٹ بولیں 
،،کیا اس زمانے میں یہ بات ممکن ہے،،
،،بالکل ہماری شادیوں کی اکثریت ارینجڈ ہوتی ہے یہاں تک کہ لڑکی نے لڑکے کو اور لڑکے نے لڑکی کو دیکھا بھی نہیں ہوتا،وہ شادی کی رات کو ہی ایک دوسرے کو دیکھتے ہیں۔
،،ڈونٹ سے دس،، مسز جینٹ نے سر پکڑ لیا،انہیں اس حالت میں دیکھ کر ہم سب ہنس دئیے۔
،،یہ کیسے ممکن ہے،، مسز جینٹ نے سر اٹھا کر ہماری طرف دیکھتے ہوئے پوچھا
،،ہو سکنے کا سوال نہیں،ایسا ہی ہوتا ہے،، میں نے کہا
،،پھر تو طلاقوں کا ریٹ آپ کے ہاں بہت زیادہ ہوگا،یہ کس طرح ممکن ہے کہ وہاں ایسی شادیاں زیادہ دیر چل سکیں،،مائیکل کے والد جو کافی دیر سے چپ بیٹھے تھے اچانک بولے
ہم سب مسکرائے،پھر احرار نے کہا،،ہمارے ہاں بھی طلاقیں ہوتی ہیں لیکن بہت ہی کم نہ ہونے کے برابر،اس کی وجہ بھی ارینجڈ میرج نہیں ہوتی بلکہ اور کئی وجوہات ہوتی ہیں،،
،، وہ کیا،، مائیکل کے والد بولے
،،معاشی بدحالی،شوہر یا بیوی کا آوارہ ہونا،لڑکی کا بانجھ پن  وغیرہ،، ہماری بیگم نے بھی گفتگو میں حصہ لیتے ہوئے جواب دیا۔
،،سوال ہی پیدا نہیں ہوتا،، مسز جینٹ نے سر نفی میں ہلاتے ہوئے کہا
انہیں یقین ہی نہیں آ رہا تھا۔
کافی دیر یہ گفتگو چلی ہم سب نے اپنی اپنی مثالیں دیں اور کہا بھی کہ میاں بیوی کی باہمی رفاقت میں طویل عمری ہی خوشی کی تھیں لیکن وہ سب یقین کرنے کو تیار ہی نہ تھے۔
پھر مسز جینٹ کہنے لگیں،، کیا آپ کا ملک بہت بیک ورڈ ہے،،
،، ہر گز نہیں،، احرار نے جواب دیا،ہمیں حدود کے اندر ہر قسم کی آزادی حاصل ہے لیکن بے راہ روی کے ہم قائل نہیں،ہمارا فیملی سسٹم بہت مضبوط اور مربوط ہے۔ہمارے بچے اگر ماں باپ کے پاس ہیں تو ان کا ادب و احترام کرتے ہیں کمائی کرنے یا نوکری کرنے کہیں چلے جائیں پھر بھی یہ احترام باقی رہتا ہے اور بچے ماں باپ کی خدمت کرنا اپنا فرض سمجھتے ہیں۔بوڑھے ماں باپ کی خدمت تو عبادت ہے ہمارے نزدیک،،
ان سب نے حیرت سے ایک دوسرے کی طرف دیکھا۔۔پھر ان کی بیٹی بولی
،،آپ کے ہاں بوڑھوں کے لئے اولڈ ہومز نہیں بنے ہوئے،تو پھر وہ اولڈ ایج میں کیا کرتے ہیں،،
،،اپنے بچوں کے پاس رہتے ہیں،بچے انہیں سنبھالتے ہیں،ان کی خدمت فرض سمجھ کر کرتے ہیں۔بزرگ بھی بچوں سے بہت پیار کرتے ہیں،بچے بھی ان سے بہت مانوس ہو جاتے ہیں۔،، احرار نے جواب دیا
،، گھر میں امن و سکون رہتا ہے؟،، مسز جینٹ نے پوچھا
،، بالکل، میں سو فیصد کی بات نہیں کر رہا،لیکن اکثریت ایسی ہی ہے جیسی میں نے بیان کی،، میں نے کہا
،،پھر تو آپ کا ملک جنت ہوگا،، مسز جینٹ نے طنزیہ لہجے میں کہا
،، ہاں بالکل ہے،بہت خوبصورت،بہت پیارا، جس میں نباتات کی بھرمار ہے،اعلیٰ نسل کی اجناس اور پھل پیدا ہوتے ہیں،گندم اور چاول کاشت ہوتے ہیں،پاکستانی چاول جیسا تو دنیا میں چاول نہیں ہے۔اللہ نے ہرقسم کی نعمت عطا کی ہے،دنیا کے بلند ترین چھ پہاڑی سلسلے پاکستان میں ہیں،پاکستانی بالائی علاقوں کا حسن ایسا کہ سوئزرلینڈ کا حسن شرمائے،زرخیز زمین ہے،معدنیات ہیں،دریا ہیں،ندی نالے ہیں اور خاص بات لوگ دل والے ہیں،قدرت بہت مہربان ہے ہم پر،،
احرار خاصا جزباتی ہو رہا تھا اس وقت۔
،،تو پھر آپ کے لوگوں کی بڑی تعداد دوسرے ملکوں میں کیوں جا رہی ہے،،
مائیکل کے فادر نے بڑا چبھتا ہوا سوال کیا کہ ہم چند لمحوں کے لئے چپ ہو گئے،ندامت سی محسوس ہوئی 
لیکن
عدیل نے جلدی سے معاملہ سنبھالا
،،ہجرت تو ہمیشہ سے ہوتی آئی ہے۔ایک جگہ سے دوسری جگہ نقل مکانی انسانی فطرت ہے۔تعلیم اور رزق کے حصول کے لئے دنیا بھر میں پھیکنے کا حکم ہمیں ہمارے مذہب نے سکھایا ہے۔ہمارے ملک سے اگر لوگ باہر جا رہے ہیں تو اس کی وجہ یہ نہیں ہے کہ انہیں اپنا اتنا زرخیز اور شاداب ملک پسند نہیں ہے، عدیل کچھ دیر کو رکا
تو میں نے بات آگے بڑھائی،، بے شک ہمارا ملک نعمتوں سے مالا مال ہے لیکن ہم یہ کہتے ہوئے ندامت بھی محسوس کرتے ہیں اور دکھ بھی محسوس کرتے ہیں کہ ہمارے ملک کا نظام درست نہیں ہے بلکہ بدتر ہوتا جا رہا ہے، پاکستان کی 68سالہ تاریخ میں ہمیں ایک بھی لیڈر نہیں ملا جو بگڑے سسٹم کو سنوا سکے،ایوب خان،بھٹو جیسے  چند آئے بھی تو انہیں کام نہیں کرنے دیا گیا۔زیادہ تر لالچ اور خود غرض آئے جنہیں اندھا دھند پیسہ سمیٹنے کے علاؤہ  کچھ سوچنے کی فرصت ہی نا تھی۔ان کی دیکھا دیکھی اوپر سے کرپشن اور بدنظمی نیچے تگ آتی چلی گئی۔عوام جو اپنے ملک سے پیار کرتے ہیں اور اس کی فلاح کی امید رکھتے ہیں،مایوسی کا شکار ہوتے جا رہے ہیں،پاکستان میں مجبور ہوتے ہیں تو اچھے مستقبل کی امید پر دوسرے ملکوں کا رخ کرتے ہیں،،
اس سے پہلے کے بحث سیاسی رنگ اختیار کرتی عدیل نے مداخلت کرتے ہوئے کہا کہ ہمارے ملک میں کسی کا دل نہیں چاہتا کہ وہ اپنی صلاحیتوں سے غیروں کو مستفید کرے لیکن ملک میں ہونے والی دہشت گردی نے خوف کی ایک فضا قائم کر دی ہے،عدم تحفظ کا احساس بھی ایک وجہ ہے نقل مکانی کی۔پاکستان کو کمزور کرنے کی سازشیں مدت سے ہو رہی ہیں،
یہ بحث اور لمبی ہو جاتی کہ مسز جینٹ نے عدیل سے قطع کلامی کے لئے معذرت کرتے ہوئے سب کو کھانے پر بلا لیا۔
مسز جینٹ کو مائیکل نے خاص طور بتا دیا تھا کہ ہم لوگ حلال کے سوا کچھ نہیں کھاتے اس لئے انہوں نے کراچی کے حلال سٹور والوں سے کیٹرنگ کرائی تھی۔کھا بڑے مزے کا تھا اس لئے سب نے جی بھر کر کھایا۔
کھانے کے بعد پھر گفتگو کا سلسلہ وہیں سے شروع ہوگیا جہاں سے ٹوٹا تھا۔
احرار کہنے لگا میری یہاں بے شمار فیملیوں سے ملاقات رہتی ہے جن میں سے اکثر کے اپنے بچے ان سے علیحدٰہ ہو چکے ہیں اور اجنبیوں کا سا سلوک کرتے ہیں ماں باپ سے۔اور اس سے بھی زیادہ تکلیف دہ بات یہ ہے کہ ماں باپ کو جب ان کی بہت ضرورت ہوتی ہے تو انہیں اولڈ ہومز میں داخل کرا دیتے ہیں۔ہمارے ہاں پاکستان میں کوئی ایسا سوچتا بھی نہیں بلکہ والدین جتنے بوڑھے اور کمزور ہوتے جائیں بچے ان کی اتنی زیادہ کیئر کرتے ہیں،
،، ان کے پاس اتنا ٹائم ہوتا ہے،، مائیکل کی بہن بولی
،، کیوں نہیں۔ہمارے ہاں عام طور پر عورتیں نوکری نہیں کرتیں، گھروں میں رہتی ہیں۔اس لئے بوڑھوں کی دیکھ بھال کوئی مسئلہ نہیں ہوتا، جسے بچے گھر کا فرد ہوتے ہیں  ویسے ہی وہ بھی۔ہمارے مذہب میں تو یہاں تک کہا گیا ہے کہ تمہارے ماں باپ اگر اس عمر کو پہنچ جائیں تو انہیں اف تک نہ کہو۔۔،،
مائیکل کی بہن نے حیرانی کے تاثر کے ساتھ احرار کو دیکھا
اور
اپنی ہی رو میں بولی،،آپ کی عورتوں کو اپنا کچھ احساس نہیں۔۔وہ ارینجڈ میرج کر لیتی ہیں۔۔گھروں میں رہتی ہیں،بچے پالتی ہیں،بوڑھوں کی دیکھ بھال کرتی ہیں۔۔ اوہ مائی گاڈ۔۔ وہ تو مر جاتی ہوں گی۔۔کوئی ان حالات میں کیسے جی سکتا ہے،،
 ہم اس کی بات پر ہنس دئیے۔
مسز جینٹ نے مداخلت کرتے ہوئے پوچھا،،آپ کے ہاں ایسی دعوتوں کے بعد پشاوری قہوہ پیا جاتا ہے،آپ پییئں گے؟،،
اب حیرت زدہ ہونے کی ہماری باری تھی۔
ضرور،ضرور،، ہم نے بیک زبان کہا لیکن ساتھ ہی پوچھا پشاوری قہوہ آیا کہاں سے۔
مسز جینٹ نے سوچتے ہوئے کہا،، مجھے یاد پڑتا ہے کہ مائیکل کے فادر کے ایک دوست نے ایک بار دیا تھا،اس میں الائچی بھی ہے،،
مسز جینٹ قہوہ بنانے کچن میں چلی گئیں اور جب قہوہ بن کر آیا تو الائچیوں کی مہک ہر سو پھیل گئی۔
قہوے کے اس دور کے بعد ہم نے واپسی کی راہ لی۔

1 تبصرے

ایک تبصرہ شائع کریں