آزادی کی یادگاراور امریکہ کا گیٹ وے


چھٹی کیا ہوتی ہے،اسے سے لطف اندوز کیسے ہوا جاتا ہے یہ کوئی امریکیوں سے پوچھے،میں نے کہیں ذکر کیا تھا کہ یہ لوگ پانچ روز سر جھکا کر کام کرتے ہیں لیکن ہفتہ،اتوار اس طرح گذارتے ہیں کہ ان سے عیاش شاید ہی کوئی قوم ہو۔
عدیل کو امریکہ میں رہتے ہوئے پانچ سال ہو گئے ہیں اور وہ بھی عادتوں کے اعتبار سے آدھا امریکی ہو چکا ہے۔آج کل ہمیں سیر کرانے کے لئے اس نے پوری ایک ہفتہ کی چھٹیاں لی تھیں تاکہ نیویارک کو اچھی طرح دیکھ لیا جائے۔اب وہ سات دن خود بھی گھومنا چاہتاتھا اور ہمیں بھی گھومانا چاہتا تھا،اپنے ایک ایک لمحے  کا پورا پورا استعمال کرنا چاہتا تھا۔
شعیب پیرزادہ،جو ہماری بیگم کے کزن ہیں اور برکلین میں  برائیٹن بیچ کے قریب رہائش پذیر ہیں،کے گھر پہنچے، ابھی کچھ ہی دیر گذری تھی کہ عدیل کہنے لگا ٹائم ضائع نہیں کرنا ہے،تیار ہو جائیں آج ہم  مجسمہِ آزادی دیکھنے چلیں گے۔
،،یار دم تو لے لینے دو،چلتے ہیں،،
میں نے جواب دیا
اور اب ہم مین ہاٹن جا رہے تھے،نجانے نیویارک کہاں تھا،یہاں مین ہاٹن تھا،برکلین تھا،کوئینز تھا،بروکس اور سٹیٹن تھا،نہیں تھا تو نیویارک نام کا کوئی شہر نہیں تھا،نیویارک ریاست انہی پانچ شہروں پر مشتمل ہے۔ امریکہ میں جب نیویارک سٹی کا ذکر ہوتا ہے تو مین ہاٹن کو ہی نیویارک کہا جاتا ہے۔

ہم باتیں کرتے ہوئے ایک سر سبز علاقے میں پہنچ گئے تھے عدیل نے بتایا کہ یہ بیٹری پارک ہے جو ایک وسیع و  عریض سیر گاہ ہے،یہاں سے دور سمندری جزیرے پر کھڑا مجسمہ آزادی نظر آتا ہے۔درمیان میں سمندر کا پتن حائل تھا اس لئے  فیری سے جانا ضروری ہو گیا تھااور اس لئے بھی کہ اپنے ہاتھ میں مشعل لئے کھڑی  خاتون  نا تو میری محبوبہ تھی کہ کچے گھڑے پر سوار ہو کر پتن کراس کرتی،وہ تو ٹارچ سے مجھے راستہ دکھا رہی تھی کہ میں تو اپنی مسند پر بیٹھی ہوں اگر میرا جلوہ دیکھنا ہے تو آ جاؤ۔
ہم اس وقت بحرا وقیانوس کے ساحل پر کھڑے تھے،یہاں لوگوں کا جمِ غفیر تھا،فیریاں آ اور جا رہی تھیں،لیکن ہمارے اور فیری کے درمیاں امریکی سماج حائل تھا،ایک طویل قطار ہمارے آگے موجود تھی جو دھیرے دھیرے آگے کھسک رہی تھی اور ساحل کے ساتھ بنی ایک عمارت میں داخل ہو رہی تھی،جب ہم اس عمارت میں داخل ہوئے تو ایسا لگاکہ ہم  ابوظہبی کے ہوائی اڈے کے پری کلیرنس  روم میں داخل ہو گئے ہوں،وہاں تو اتنی تلاشی نہیں لی گئی تھی جو یہاں لی گئی،جامہ تلاشی ہوئی،بیگ تلاشی اور پھر جیب تلاشی ہوئی،پینٹ کی بیلٹ اتروئی گئی،بوٹ اتروالئے گئے،سکینر سے گذارا گیابس کتوں سے سنگھوانا رہ گیا تھا،
آزادی کے مجسمے کو قریب سے دیکھنے کے چکر میں اپنی آزادی کا بینڈ بج گیا۔


وقت اچانک میرے کانوں میں ڈاکٹر مارٹن لوتھر کنگ کے الفاظ گونجنے لگے جو انہوں نیاپنے شہرہ آفاق خطاب میں کہے تھے
،،میرا ایک خواب ہے کہ ایک دن آئے گا جب یہ قوم اٹھ کھڑی ہو گی اور اپنے عقائد کے حقیقی معنی سے باہر زندہ رہے گی کہ ہم تمام انسان ایک جیسے ہیں کی سچائی کو خود پر واضح کرنا ہے۔
میرا ایک خواب ہے کہ ایک دن آئے گا جب جارجیا کی سرخ پہاڑیوں پر غلام کسانوں کے بیٹے اور غلاموں کے آقاؤں کے بیٹے بھائی چارے کی فضا میں ایک میز پر بیٹھنے کے قابل ہو جائیں گے
میرا ایک خواب ہے کہ ایک دن آزادی اور انصاف کے لئے ترسی ہوئی مسیسپی جیسی صحرایی ریاست بھی آزادی اور انصاف کے نخلستان میں تبدیل ہو جائے گی۔
میرا ایک خواب ہے کہ میرے چار بچے ایک د ن ایک ایسی قوم میں زندگی بسر کریں گے جہاں انہیں رنگ و نسل کی بجائے ان کے کردار کی بنا پر پرکھا جائے گا،
I have a dream today
ڈاکٹر لوتھر کنگ نے امریکہ کی آزادی اور مجسمہِ آزادی کی تنصیب کے بہت بعد جب واشگٹن ڈی سی میں  ایک مارچ کے درمیان جب یہ خطاب کیا تھا تو شاید آزادی ملنے کے باوجود کالوں سے ایسا ہی ہتک آمیز سلوک روا رکھا جاتا ہو گا جیسا صرف آزادی کے مجسمے کو دیکھنے کے لئے جانے والے میرے جسے تمام افراد سے روا رکھا گیا تھا۔
یہ آزادی کا کون سا رخ تھا میں نہیں سمجھ پایا،شاید ڈاکٹر لوتھر سمجھ گئے تھے،میں فیری میں بیٹھا،مجسمہ ِآزادی کو قریب آتا محسوس کرکے یہی سوچ رہا تھا۔
فیری میں داخلے کے بعد ہم اوپری منزل عرشے پر پہنچ کر ریلنگ کے ساتھ لگ کر کھڑے ہو گئے چاروں طرف پانی،ٹھاٹھیں مارتا غراتا لہراتا بحر اقیانوس اور دوسری جانب نیویارک کی اونچی اونچی پر شکو ہ عمارتیں کا نظارہ قابلِ دید تھا۔
فیری ایک جھٹکے سے آئرلینڈ کے بنے ہوئے ڈیک کے ساتھ لگا دی گئی اور ہم آزادی کے مجسمے کی ملکیت جزیرے کی سرزمین پر اتر گئے۔یعنی ہم نے بالآخر پتن کراس کر ہی لیا تھا۔
یہ مجسمہ ساز فیڈرک آگسٹی بر تھولڈی کا سوچا ہوا خیال،فرانس کی طرف سے دوستی کا تحفہ اور دو قوموں کے درمیان آزادی کیلئے کمٹمنٹ کا نشان ہے۔یہ ایک پر شکوہ وجود ہے جو نیلے آسمان میں بلندہوتا چلاگیا ہے اور اس کے شاندار ہونے میں کوئی شبہ نہیں ہے۔یہ مجسمہ ایک عورت کا ہے۔اسے شروع میں دنیا کی آزادی کی روشنی کا مجسمہ کہا جاتا تھا۔سن1924میں اس جزیرے اور مجسمہِ آزادی کو قومی یادگار بنا دیا گیا۔اس کا لباس لہراتے چوغے اور چادروں سے مشابہ ہے اس کے سر پرتاج ہے۔دائیں ہاتھ میں مشعل اور بائیں ہاتھ میں کتاب ہے جس پر 4جولائی 1776لکھا ہوا ہے جو امریکہ کا یومِ آزادی۔مجسمے کے پیروں میں پڑی زنجیریں ٹوٹی ہوئی ہیں جو اس بات کی علامت ہیں کہ ظلم اور جھوٹ کو روند ڈالا گیا ہے۔
اس مجسمے کی اونچائی نچلے پیڈسٹل سے اوپر ٹارچ تک تقریباََ305فٹ ایک انچ ہے لیکن مجسمے کی بذاتِ خود پاؤں سے لیکر سر کی چوٹی تک اونچائی151فٹ ایک انچ ہے۔جبکہ جس  پیڈسٹل پر یہ استادہ ہے اس کی اونچائی 89فٹ ہے۔فرانس نے اس دیوقامت مجسمے کے لئے چار لاکھ ڈالر مہیا کئے  جبکہ89فٹ اونچے پیڈسٹل پر خرچ ہونے والی تقریباََ دو لاکھ ستر ہزار ڈالر کی رقم کے لئے ایک مہم چلائی گئی۔امریکی یہودی شاعرہ ایما لیزارس نے مجسمہ آزادی کو دنیا کے لئے راہبر مینارہِ نور قرار دیا۔ایک نظم جو اس نے پیڈسٹل کی تعمیر میں رقم اکھٹی کرنے کے لئے تخلیق کی تھی،وہ آج بھی مجسمہِ آزادی کے پیڈسٹل پر کندہ ہے۔
The New Colossus”،،
by Emma Lazarus
Not like the brazen giant of Greek fame,
With conquering limbs astride from land to land;
Here at our sea-washed, sunset gates shall stand
A mighty woman with a torch,
whose flame
Is the imprisoned lightning, and 
her name Mother of Exiles.
From her beacon-hand
Glows world-wide welcome; her mild eyes command
The air-bridged harbor that twin cities frame.
“"Keep, ancient lands, your storied pomp!"”cries she
With silent lips.“Give me your tired, your poor,
Your huddled masses yearning to breathe free,
The wretched refuse of your teeming shore.
Send these, the homeless, tempest-tost to me,
I lift my lamp beside the golden door!”
اس نظم میں اس نے مجسمے کے معنی کو بھی سمویا ہے۔
مشہوراور دیوقامت تو کئی اور مجسمے بھی ہیں جیسے روم میں نیرو کا دیوقامت مجسمہ،بدھا کا مجسمہ عقیدت اوربلندی کے لحاظ سے قابلِ ذکر ہے۔ شہرت کے اعتبار سے تو ابوالہول کا مجسمہ بھی کسی سے کم نہیں ہے،خوف اور ڈر کا نشان،لیکن عورت کی شباہت کے اس مجسمے کو کیا کہوں،اگر یہ آزادی کا مجسمہ ہے تو ڈاکٹر لوتھر کو 1963میں رنگ و نسل کے تعصب سے آزادی کے خواب کیوں دیکھنے پڑے۔
فیری سے اتر کر جب ہم  آزادی کی تلاش میں آگے کو چلے تو سامنے ایک ریسٹورنٹ نظر آگیا،عنایہ کو اب بھوک ستا رہی تھیاس لئے وہ کچھ کھانے کے لئے شور مچانے لگی،عدیل ریسٹورنٹ سے کچھ لینے چلا گیا،میں نے موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئیٹوائلٹ کا رخ کیا،کیا کروں شوگر کی بنا پر بار بار حاجت ہوتی ہے۔اتنی بارونق جگہ پر میرا خیال تھا کہ مشکل ہے کہ ٹوائلٹ صاف ملیں۔
لیکن
کمال کی  بات ہے، ٹوائلٹ اتنے صاف و شفاف تھے بلکہ چمک رہے تھے ایسے  جیسے کبھی استعماک ہی نہ ہوئے ہوں۔ٹشو پیپرکے سیٹ کورز ایک طرف لٹک رہے تھے۔رول دوسری طرف،ہاتھ دھونے کیلئے بیسن تھے،آٹومیٹک ٹیگ جن کو دبانے سے لیکوڈ سوپ نکل آتا ہے۔اوپر ہوا سے ہاتھ سکھانے والی مشین۔۔۔کیا انتظام تھا اور وہ بھی پبلک مقام پر۔
میں باہر آیا تو عنایہ آلو کے فرائز کھا رہی تھی،ایک آلو کا چپس اس نے میری جانب بھی بڑھا دیا۔ساتھ ہی عدیل نے لیموں پانی کا ایک کنگ سائزگلاس یہ کہتے ہوئے پکڑا دیا کہ یہاں کھانے کو تو بہت کچھ ہے لیکن شاید ہم نا کھا سکیں۔یہ لیموں پانی بہرطور حلال ہے۔
یہ دنیا کا مشہور ترین دیوقامت مجسمہ ہے لیکن کسی بے جان بت کوئی کتنی دیر دیکھ سکتا ہے اور اس کے سحر میں کتنی دیر اسیر رہ سکتا ہے۔آپ یہاں آتے ہیں کچھ سیر کرتے ہیں،تھوڑی دیر مجسمے کو سر اٹھا کر دیکھتے ہیں،اس کے گرد حیرت زدہ آنکھوں کے ساتھ پھرتے ہیں،لیموں پانی کا گلاس ختم کرتے ہیں،دوچار سلفیاں بناتے ہیں اور اگر کوئی ساتھ ہے تو اسے تصویر کھینچنے کے لئے کہتے ہیں،پھر واپسی کے لئے فیری میں آ بیٹھتے ہیں۔ اور بس، اتنا سا ہے مجسمہِ آزادی کے جزیرے کا سفر۔
اب دل یہ چاہ رہا تھا کہ فیری بس چل پڑے اور ہمیں نیویارک پہنچا دے تاکہ کچھ پیٹ پوجا کی جا سکے لیکن شاید ابھی کچھ اور دیر ہمیں بھوک برداشت کرنی تھی۔
فیری لبرٹی آئی لینڈ سے تو ہمیں لے کر رخصت ہو گئی تھی لیکن سیدھی مین ہاٹن نہیں گئی تھی بلکہ ذرا رخ بدل کر ایک اور جزیرے پر جا رکی۔یہ ایلس آئی لینڈ ہے،وہ جزیرہ جہاں کسی زمانے میں امریکہ میں مستقل ر ہائش کے لئے آنے والوں کا پہلا پڑاؤ ہوتا تھا  یعنی اسے گیٹ وے ٹو امریکہ کہا جا سکتا ہے۔تارکین وطن کی کشتیاں اور بحری جہاز یہیں لنگر انداز ہوتے تھے۔مہینوں کا دشوار گذرا سفر اسی ایلس آئی لینڈ پر ہوتا تھا لیکن یہ ان کا عارضی پڑاؤ ہوتا تھا۔کہتے ہیں سن 1820اور سن1920کے درمیان اندازاََ 34ملین افراد امریکہ میں داخل ہوئے جس میں سے تین چوتھائی وہاں مستقل رہائش کے لئے آئے۔ان نئے آنے والوں کے لئے امریکہ کی پہلی جھلک یہی مجسمہِ آزادی تھا۔
فیری اسی جزیرے پر دس منٹ کے لئے رکی تھی۔سامنے ہی ایک معمولی سی عمارت تھی جس میں فیری سے اترنے والے سیاح ذوق و شوق سے جا رہے تھے مجھے یہ عمارت پسند نہیں آئی تھی بالکل اسی طرح جیسے مجھے وائیٹ ہاوس کی معمولی سی عمارت پسند نہیں آئی تھی جس میں دنیا کا طاقت ور ترین شخص رہتا تھا اس کی اس رہائش گاہ سے تو مجھے باغِ جناح کی جناح لائبریری زیادہ پسند ہے۔
میرے پسند یا نا پسند کرنے سے کیا ہوتا ہے،یہ وہ عمارت تھی جہاں تارکینِ وطن کی شناخت ہوتی تھی،امریکہ میں داخلے اور قیام کے سرکاری کاغذات تیار کئے جاتے تھے اور ان کی تیاری میں جتنا وقت لگتا تھا اتنے وقت کے لئے یہ تارکینِ وطن کا عارضی پڑاؤ ہوتا تھا۔فیری میں بھی اور یہاں بھی عہدِ رفتہ کی بلیک اینڈ وائیٹ فلمیں دکھائی جا رہی تھیں۔دنیا بھر سے آزاد زندگی گذارنے کے نام پر غلاموں کی تازہ دم دستے یہاں ہر وقت پہنچتے رہتے ہیں،میں امریکہ کے اس گیٹ وے پر ایک طائرانہ نظر ڈال کر واپس فیری پر آ گیا جہاں بچے میرا انتظار کر رہے تھے۔   

2 تبصرے

  1. ہے سفرنامہ رضا کا لاجواب
    ان کے ہوں شرمندہ تعبیر خواب

    جواب دیںحذف کریں
  2. 16 ویں قسط اس کی ہے وجد آفریں
    ہو یہ اقصائے جہاں میں انتخاب
    احمد علی برقی اعظمی

    جواب دیںحذف کریں

ایک تبصرہ شائع کریں