نیاگرا آبشار


نیویارک جاتے ہوئے یہ خیال تھا کہ پہلے کینیڈا اور نیویارک کے سرحدی شہر بفیلو میں واقع دنیا کی خوبصورت ترین آبشار،،نیاگرا،، دیکھ لی جائے پھر راستے ہی میں ارادہ بد ل گیا کہ سفر زیادہ لمبا ہو جائے گا اور عدیل کا کہنا تھا کہ اتنی لمبی ڈرائیو کر کے تھکن ہو جائے گی۔نیویارک کی رونقیں دیکھ کر جس روز واپسی کے لئے

چلیں گے وہاں سے پہلے بفیلو چلیں گے،وہاں نیاگرا آبشار دیکھ کر واپسی کی راہ لیں گے۔واپسی کا سفر اگرچہ بہت لمبا ہو جانا تھا لیکن طے شدہ پروگرام کے مطابق ہم عازمِ سفر ہوئے۔
آج ہم صبح جلدی تیار ہوئے،شعیب بھائی کو خدا حافظ کہا اور بفیلو کی طرف چل دئیے۔ بفیلو شہر ریاست نیویارک کا ایک شہر ہے،ہمیں شہر کا نام سن کر ہنسی آ گئی کہ یار یہ کیسا ملک ہے جنہوں نے اپنے شہر کا نام بھینس رکھا ہوا ہے،خیر جی ہمیں کیا وہ چاہے بھینس رکھیں یا مجھ،ویسے انگریزی میں بے وقعت چیز بھی بارعب لگتی ہے،بفیلو پہنچ کر پتہ چلا کہ ابھی سفر ختم نہیں ہوا ابھی 15 میل کا سفر باقی ہے سو ہم نے گاڑی نیاگرا شہر کی طرف موڑ لی۔
نیاگرا،ایک چھوٹا سا شہر ہے جس کی آبادی صرف پچاس ہزار کے قریب ہے،نیاگرا آبشار کی وجہ سے یہاں سیاحوں کی آمد ورفت کا سلسلہ جاری رہتا ہے۔


نیاگرا آبشار،براعظم شمالی امریکہ میں کینیڈا اورریاست ہائے متحدہ امریکہ کی سرحد پر واقع دنیا کی یہ مشہور ترین آبشار حسنِ فطرت کا عظیم شاہکار اور دنیا کے قدرتی عجائبات میں سے ایک سمجھی جاتی ہے اوردنیا میں سیاحوں کی پسندیدہ ترین مقامات میں شامل ہے۔یہ آبشار کینیڈا کے صوبہ اونٹاریو اور امریکہ کی ریاست نیویارک کے درمیان واقع ہے۔اسے پہلی بار سن 1678میں فادر لوئس بپی پن نے دریافت کیا۔سن1759میں سیورڈی لاسالی نے یہاں ایک قلعہ،، فورٹ کاونٹی،، تعمیر کیا جس کا نام بعد ازاں،،فورٹ نیاگرا،، ہوگیا۔
دریائے نیاگرا کو سن1819میں امریکہ اور کینیڈا کے درمیان سرحد تسلیم کیا گیا۔سن 1848میں نیاگرا کو قصبے کا درجہ دیا گیا اوریہی قصبہ تقریباََ پچاس سال کے بعد سن1892میں شہر کا درجہ پا گیا۔
امریکہ اور کینیڈا سے نیاگرا تک ہوائی جہاز،ریل گاڑی یا سڑک کے ذریعے پہنچا جا سکتا ہے۔دونوں ملکوں کے درمیان بذریعہ نیاگرا رابطہ ریل سے ہی ہے جہاں دریائے نیاگرا پر دو پل تعمیر کئے گئے ہیں جن میں سے،، قوس و قزح پل،، بہت مقبول ہے،یہ پل سن 1941میں قائم ہوا اور اس کا تعمیراتی حسن آج بھی برقرار ہے۔یہ پل امریکہ اور کینیڈا کے درمیان مصروف ترین گذرگاہ ہے۔
نیاگرا آبشار کا  بڑا اور زیادہ حسین حصہ کینیڈا کی سمت ہے جسے دیکھنے کے لئے قوس وقزح پل سے گاڑی یا پیدل کینیڈا میں داخل ہوا جا سکتا ہے۔امریکہ اور کینیڈا کے لئے سرحد عبور کرنے کے لئے وزے کی ضرورت نہیں ہوتی،ہاں ہمارے جیسے غیر ملکیوں کے لئے ویزہ لازمی ہے۔
دریائے نیاگرا براعظم شمالی امریکہ کی دو عظیم جھیلوں،، ایری،، اور،،اونٹاریو،، کو ملاتا ہے۔اس دریا میں واقع جزیرہ،،گوٹ،، دریائے نیاگرا کو دو حصوں میں تقسیم کرتا ہے۔جس سے نیاگرا کی عظیم آبشاریں جنم لیتی ہیں۔
نیاگرا آبشار کے تین حصے ہیں،سب سے بڑا اور متاثر کن حصہ کینیڈا کی طرف ہے اس کی شکل چونکہ گھوڑے کی نعل جیسی ہے  اس لئے اسے ہارس شوکا نام دیا گیا ہے۔اس آبشاری حصے کی چوڑائی 2600فٹ ہے۔
امریکہ کی جانب بہنے والی آبشار کو امریکی آبشار کہتے ہیں جس کی چوڑائی 1060فٹ ہے۔تیسرا حصہ یا تیسری آبشار نسبتاََ چھوٹی ہے جسے برائڈل ویل کا نام دیا گیا ہے۔یہ تیسری آبشار بھی امریکہ کی جانب واقع ہے۔
ان تینوں آبشاروں سے انتہائی سیزن میں فی سیکنڈ 225,000مکعب فٹ پانی نیچے گرتا ہے۔یعنی ایک منٹ میں تقریباََ ساٹھ لاکھ فٹ پانی کینیڈین سائیڈ پر 180فٹ کی بلندی سے گرتا  ہے۔جبکہ امریکن سائیڈ پر جہاں ہم موجود تھے تقریبا  100فٹ کی بلندی؎؎؎ سے گرتا ہے۔ایک اندازے کے مطابق ہر سال 40 لاکھ سیاح نیاگرا کا رخ کرتے ہیں۔
سیاح کروز کے ذریعے نیاگرا آبشار کا بہر قریب سے نظارہ کر سکتے ہیں۔آبشار کے پانی سے بننے والی قوس و قزح کا فضائی نظارہ کرانے کا بھی انتظام یہاں موجود ہے جس کے لئے ہیلی کاپٹر استعمال ہوتے ہیں،اس کے علاوہ ہیلیم غباروں کا بھی استعمال کیا جاتا ہے۔

نیاگرا آبشار کا علاقہ دونوں ممالک میں قومی پارک کا درجہ رکھتا ہے۔امریکہ میں نیاگرا ریزرویشن اسٹیٹ پارک کہلاتا ہے۔یہ پارک امریکہ کے قدیم ترین پارکوں میں سے ایک ہے جسے سن1885میں امریکی حکومت نے اپنے زیرِ انتظام لیا۔یہ پارک 107ایکڑ رقبے پر پھیلا ہوا ہے۔
اپنی خوبصورتی،اپنے حسن کی بدولت نیا آبشار دنیا بھر کے اہم ترین سیاحتی مقام کے علاوہ یہ پن بجلی کے بڑے وسیلے کا باعث بھی ہے۔
نیاگرا کے پانیوں کو پن بجلی  کے لئے استعمال کرنے کا پہلی بار سن1759میں سوچا گیا۔آج۔نیاگرا،ریاست بیویارک میں سب سے زیادہ بجلی پیدا کرنے والی کمپنی ہے جو2.4گیگاواٹس(ملین کلوواٹس) پیداواری صلاحیت کی حامل ہے۔
نیاگرا آبشار سے گرنے والا پانی ایک مسخر کر دینے والا سحر رکھتا ہے جس کے زیرِ اثر انسان گھنٹوں وہاں بیٹھ سکتا ہے۔ہمیں چونکہ واپسی کا لمبا سفر کرنا تھا اس لئے دو تین گھنٹے وہاں صرف کر کے ہماری واپسی کا سفر شروع ہوا،عدیل نے اگلے روز دفتر جانا تھا ورنہ دل چاہتا تھا کہ کم از کم ایک رات تو وہاں ٹہرا جاتا۔
راستے میں یہی گفتگو جاری تھی جس پر عدیل نے کہا کہ اگلی دفعہ دو ایک دن کے لئے صرف یہی علاقہ دیکھنے آئیں گے۔
میں نے کہا
،،یار عدیل اس کی خوبصورتی بلا شبہ بے مثال ہے لیکن تمہیں تربیلا ڈیم کی سیاحت یاد ہے،جب ہمارے سامنے ڈیم کا سپل 
تربیلا سپل وے

وے گھولا گیا تھااور پانی نے زمین سے ٹکرا کر جو اچھال پیدا کی تھی،اس کے سامنے نیاگرا کی یہ آبشار کچھ بھی نہیں ہے۔،،
عدیل کہنے لگا
ِِ،،پاپا، پاکستان میں بھی دیکھنے کے لئے بے شمار چیزیں ہیں،ہمارے پہاڑی علاقوں میں بھی بڑے بڑے گلیشیر ہیں خوبصورت آبشاریں ہیں،جھیلیں ہیں،تندوتیز دریا ہیں،اور یہ سب اتنے قدیم اور تاریخی ہیں کہ جن کی مثال نہیں ملتی 
سجی کوٹ (ایبٹآباد) پاکستان واٹرفال

لیکن افسوس یہ ہے کہ یہ منظم نہیں ہیں، ٹورسٹ کو کوئی سہولت مہیا نہیں ہے یہاں امریکہ میں معمولی سی چیز کو بھی اس طرح پیش کیا جاتا ہے اور اس طرح اس کا انتظام کیا جاتا ہے کہ ٹورسٹ کھنچا چلا آتا ہے۔نیاگرا فال تو پھر بھی ورلڈ فیم ہے۔،،
میں سوچ رہا تھا کہ ایک وقت تھا جب پاکستان کے قدرتی حس کو دیکھنے کے لئے سیاحوں کی لائنیں لگی ہوتی تھیں،اگرچہ سڑکوں کا سیاحتی علاقوں میں جال نہیں بچھا ہوا تھالیکن اس ملک کے حسن کا ہر سیاح شیدائی تھا،لیکن  سیاحوں کی آمد و رفت شاید ہم نے خود بند کر دی، کاش جنرل ضیاالحق نے امیرالمومینین بننے کا نا سوچا ہوتا اور طالبانی فتنہ نا پیدا کیا ہوتا تو سیاحت کی انڈسٹری ہی اتنی زیادہ ہوتی کہ ہم آئی ایم ایف کو کبھی کا دیس نکالا دے چکے ہوتے۔خیر میرے جیسے غیر سیاسی لوگوں کو سیاسی باتیں نہیں کرنی چاہیں۔

Post a Comment