واٹر گیٹ کمپلیکس

واٹر گیٹ کمپلیکس


امریکہ میں حلال کھانا اگر گھر کے باہر کھانا ہو تو نیویارک میں تو ایسا کوئی مسئلہ نہیں ہے،وہاں کھانوں کے لئے کئی علاقے مشہور ہیں ہم چونکہ میری لینڈ میں ٹھہرے ہوئے تھے اس لئے وہاں  جب لاہوری سٹائل کے کھانے کھانے کی چاہت ہوتی تھی تواس کے لئے ایک ڈیڑھ گھنٹے کی ڈرائیو کرنی پڑتی تھی۔
فاصلوں کی پیمائش اگرچہ کلومیٹروں اور میلوں میں ہوتی ہے،لیکن امریکہ میں اگر کسی سے پوچھو کہ فلاں علاقہ کتنے فاصلے پر تو جواب ملتا ہے آدھ گھنٹے،پون گھنٹے کی ڈرائیو پر۔

اس روز پروگرام بنا کہ کھانا باہر کھایا جائے۔عدیل کی رہائش کے اردگرد حلال کھانے کا کوئی مرکز موجود نہیں تھا،سوائے پیزا کے۔پیزا میں بھی یہ قباحت ہے کہ اس میں جو چکن استعمال ہوتا ہے وہ حلال نہیں ہوتا،جھٹکے کا ہوتا ہے۔امریکیوں کا تووہاں جھمگھٹا لگا ہوتا ہے،لیکن ہم سے جانتے بوجھتے مکھی نہیں نگلی جاتی،ہاں اگر کبھی پیزا کھایا بھی تو ویجیٹیبل۔
اس روز بچوں سے کہا کہ آج کا کھانا میری طرف سے ہوگا۔لیکن چلو وہاں جہاں دیسی لاہوری سٹائل کا کھانا مل سکے۔

راوی، ورجینیا میں لاہوری سٹائل کے کھانوں کے لئے مشہور ہے۔اردگرد کی ریاستوں سے یہاں کھانا کھانے آتے ہیں۔عدیل اور رابعہ بتارہے تھے کہ فہیم بھائی چار گھنٹے کی ڈرائیو کر کے یہاں کی کڑہائی کھانے آتے ہیں، میں نے کہا کہ چلو وہیں چلتے ہیں۔

ورجینیا جاتے ہوئے جب ہم واشنگٹن ڈی سی میں سے گذر رہے تھے تو ایک
 بلڈنگ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے عدیل نے بتایا کہ اس عمارت میں شازیہ باجی اور احرار بھائی رہتے ہیں اس سے تھوڑا آگے ایک وسیع وعریض عمارت نظر آئی،امریکہ میں سرکاری عمارتیں علیحدٰہ اور دور سے پہچانی جاتی ہیں۔میں نے عدیل سے کہا یہ بھی کوئی سرکاری عمارت لگتی ہے۔
،،ہاں جی،یہ ہے ہی زبردست اور اہم،،
عدیل نے کہا
،،وہ کیسے،،
میں نے پوچھا
،،یہ عمارت واٹر گیٹ کمپلیکس ہے،اس عمارت سے ایک سکینڈل نے جنم لیا تھا جس نے امریکہ کی سیاست پر گہرا اثر ڈالا تھا اور ایک امریکی صدر کو اس سکینڈل کی بنا پر اقتدار چھوڑنا  پڑا تھا،،
عدیل نے جواب دیا
یہ کوئی 35،36سال پرانا واقعہ ہے،میں تو اس وقت پیدا بھی نہیں ہوا تھا،اور شاید آپ بھی ابھی پڑھتے ہی ہوں گے؟
عدیل نے مزید کہا
اتنی دیر میں گاڑی تو آگے بڑھ گئی  لیکن واٹر گیٹ کمپلیکس مجھے کالج کے دور میں پہنچا گیا،گھر پر اخبار اور ریڈیو ہی اطلاعات کا ذریعہ تھے اگرچہ پاکستان میں ٹیلی ویژن شروع ہوئے چھ سات سال ہو گئے تھے،لیکن اس کی نشریات کا احاطہ زیادہ دور تک نہیں تھا،ساھیوال میں اس کی نشریات زیادہ صاف نہیں تھیں اور شہر میں ٹیلی ویژن سیٹ بھی زیادہ نہیں تھے،والد صاحب چند دن پہلے بلیک اینڈ وائیٹ آرجی اے کا سلائڈنگ ڈور والا ٹی وی لائے تھے،پاکستان  تازہ تازہ سن 71کی جنگ سے فارغ ہوا تھا،اس جنگ کے نتیجے میں مشرقی پاکستان بنگلہ دیش بن گیا تھا،اب مغربی پاکستان ہی پاکستان تھا،سن70 میں ہونے والے الیکشن میں مغربی پاکستان میں پاکستان پیپلزپارٹی اکثریتی جماعت کے طور پر ابھری تھی  اور اسی نے یہاں حکومت بنائی تھی کہنے والے تو یہ بھی کہتے ہیں کہ پاکستان کو دولخت کرنے کی سازش امریکہ نے کی تھی اور اس کا بحری بیڑا امریکی ساحلوں سے پاکستان کے ساحلوں تک نا پہنچ پایا۔
یادیں تھیں کہ امنڈی چلی  آ رہی تھیں 
غالباََ سن1972کا کوئی مہینہ تھا جب حکومت نے پہلی بار پاکستانیوں کو پاکستانی ہونے کی شناخت،شناختی کارڈ کا اجراء کیا تھا،اسی زمانے میں جب اخبارات میں شناختی کارڈ کے اجراء کی خبریں چھپیں تو ساتھ ہی بین الاقوامی خبروں میں امریکہ میں واٹر گیٹ سکینڈل کے بارے میں خبریں آنی شروع ہوئیں،دن میں اخبارات سے معلومات اکھٹی کرنا اور رات کو کیفے ڈی روز پر بیٹھ کر دوستوں سے ان پر گفتگو کرنا روز کا معمول تھا۔ہمارے دوستوں میں یوں تو بہت سارے دوست ہوتے تھے لیکن ان میں سے راؤ شفیق اور نعیم نقوی خبروں پر گرماگرم تبصرے کیا کرتے تھے،راؤ چونکہ کالج میں ہم سے دوسال اگلی جماعت میں تھا اس لئیاس کی معلومات مجھ سے بہرطور زیادہ تھیں،اس نے واٹر گیٹ والی خبر پر امریکہ کی سیاست اور اس کے پاکستانی سیاست پر اثرات کے حوالے سے اس تیقن کے ساتھ بات کی کہ ہمیں لگتا تھا کہ یار یہ درست کہہ رہا ہے۔
،، پاپا کہاں کھوگئے،،
عدیل نے مجھے خاموش دیکھ کر پوچھا
،، ارے کچھ نہیں یار،واٹر گیٹ کمپلیکس دیکھ کر وہ زمانہ یاد آ گیا جب یہ واقعہ ہوا تھا،اخبارات میں بڑا چرچا ہوا تھا۔ہمارا طالب علمی کا زمانہ تھا اور ابھی ہم شادی کے جھمیلے میں بھی نہیں پھنسے تھے،آزادی کے دن تھے،واہ کیا دن تھے۔،، ہم نے ہنس کر جواب دیا۔
ہماری بیگم ایسے موقع پر کہاں چوکنے والی تھیں،بولیں 
،،اچھا تو ہم جھمیلا ہیں، کیوں کی تھی شادی،،
،،ارے بابا تمہیں نہیں کہا،تم تو ایسے ہی لڑنے لگیں،،
ہماری بات سن کر بچے ہنسنے لگے کہ اب ماما کو منائیں،ہم سبھی ہنس دئیے۔
واٹر گیٹ  سکینڈل کا آغاز اسی کمپلیکس سے ہوا تھا۔یہ17جون 1972کا واقعہ ہے کہ ڈیموکریٹک نیشنل کمیٹی کے اس کمپلیکس میں واقع دفتر میں چوروں کے ایک گروہ کو گرفتار کیا گیا،یہ کوئی عام چوری کا واقعہ نا تھا۔یہ کوچہ گرد جو گرفتار ہوئے تھے
صدر رچرڈ نکسن کی ری الیکشن کمپیئن سے منسلک تھے اور یہ اس وقت رنگے ہاتھوں پکڑے گئے جب یہ ٹیلی فون کے تاروں کے ساتھ فون کال ٹیپ کرنے کے آلات منسلک کر رہے تھیاور خفیہ دستاویزات چرا رہے تھے۔
تاریخ دانوں کا کہنا تھا کہ وہ یقین سے نہیں کہہ سکتے کہ صدر رچرڈ نکسن کو واٹر گیٹ جاسوسی مشن کے وقوع پذیر ہونے سے پہلے اس کا علم تھا یا نہیں۔کہا یہ جاتا ہے کہ صدر رچرڈ نکسن نے واقہ کے وقوع پذیر ہونے کے بعد چوری کے واقعہ کو دبانے کے لئے کثیر رقم خرچ کی،ایف بی آئی کو جرم کی تحقیقات سے روکنے کے لئے سی آئی اے کو استعمال کرنے کے علاؤہ شہادتوں کو ختم کرنے کی کوشش کی۔اس کے علاؤہ ان تمام سٹاف ممبروں کو عہدوں سے فارغ کر دیاجو تعاون پر تیار نہیں تھے۔آخر کار اگست1974میں واٹر گیٹ سازش میں صدر نکسن کے کردار کے سامنے آنے پر صدر نے استعفیٰ دے دیا۔ان کے جانشین جیرالڈ فورڈ نے صدر کا عہدہ سنبھالتے ہی نکسن کو بطور صدر تمام جرائم جو تسلیم کئے گئے اور جو کئے جانے تھے میں معافی دینے کا اپنا صدارتی حق استعمال کرتے ہوئیمعاف کر دیا۔اگرچہ صدرنکسن کو اس کیس میں عدالت کا سامنا کبھی نہیں کرنا پڑا لیکن واٹر گیٹ سکینڈل نے امریکہ کی سیاست کو ہمیشہ کے لئے تبدیک کر دیا اب امریکہ کے عوام صدارتی محل اور اپنے لیڈروں کے لئے زیادہ تنقیدی ہو گئے ہیں،خاص طور پر صدر کے عہدے کی جانب سے کئے گئے اقدامات پر زیادہ ہی تنقیدی نگاہ رکھی جاتی ہے۔یہی ویہ ہے کہ سن1976کے الیکشن میں اگرچہ صدر فورڈ نے نکسن اورواٹر گیٹ سکینڈل کو نظر انداز کر دیا لیکن ان کے ڈیموکریٹک حریف جمی کارٹر نے واٹر گیٹ سکینڈل کو اس طرح استعمال کیا کہ صدر فورڈ صدارتی دوڑ میں دو فئصد ووٹوں سے شکست کھا گئے کیونکہ عوام واٹر گیٹ سکینڈل میں نکسن کی حمایتکرتے ہوئے صدر فورڈ کے معافی کے اعلان کو نہیں بھولے تھے۔
آج جب میں پاکستان میں بیٹھا اپنی یادداشتوں کو ضبطِ تحریر میں لارہا ہوں،تو مجھے واٹر گیٹ سکینڈل کے حوالے سے امریکی ادارے نیشنل سکیورٹی ایجنسی(NSA) کے ایک منحرف جاسوس ایڈورڈ سنوڈن کے برطانوی نشریاتی ادارے گارڈین میں چھپنے والا انٹر ویو یاد آ گیا جس کے مطابق ایجنسی کو اختیارات حاصل ہیں کہ وہ کروڑوں نہیں بلکہ اربوں افراد کے حوالے سے تمام معلومات حاصل کرنے میں آزاد ہے جس میں ہر فرد کی ای میلز، آن لائن چیٹ اور نیٹ پر کی گئی تمام کی تمام ریسرچ شامل ہے۔نیشنل سکیورٹی ایجنسی نے جس سسٹم کے ذریعے جاسوسی شروع کر رکھی ہے اس نیٹ ورک کا نام،،ایکس کی سکور(x key score) رکھا ہے۔یہ نیٹ ورک انٹر نیٹ پر جاسوسی کا سب سے بڑا سسٹم ہے۔سابق امریکی جاسوس ایڈورڈ سنوڈن نے جب برطانوی نشریاتی ادارے،، گارڈین،، کو پہلا انٹرویو دیتے ہوئے انکشاف کیا کہ،، میں یہاں آپ کے سامنے بیٹھا ہوں اگر مجھے آپ کایعنی میزبان کا یا آپ کے اکاونٹینٹ کا ای میل پتہ ہو تو انٹرنیٹ پر میں آپ کی تمام کی تمام سرگرمیوں کا پتہ لگا سکتا ہوں،،ایڈورڈ سنوڈن  کے اس انکشاف نے نہ صرف  انٹرنیٹ صارفین بلکہ دنیا بھر کی حکومتوں کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا ہے۔ایڈورڈ سنوڈن کے اس بیان  کی امریکی انٹیلی جنس کمیٹی کے چیئرمین مائیک راجر نے تردید کر دی کہ ایسا کرنا نا ممکن ہے اور امریکہ کے پاس ایسی ٹیکنالوجی موجود نہیں ہے  ایڈورڈ سنوڈن  جھوٹ بول رہا ہے۔لیکن ایکس کی سکور ٹیکنالوجی کے وسیع نیٹ ورک کی سٹڈی سے ایڈورڈ سنوڈن  کا انکشاف ثابت ہوتا ہے کیونکہ ایکس کی سکور نیٹ  ورک کی مدد سے ہر  شخص کے ای میل اور اس کی تمام تر سرگرمیوں پر نظر رکھی جا سکتی ہے اس نیٹ ورک کے ذریعے امریکی خفیہ ادارے  جاسوسی کر رہے ہیں اس نیٹ ورک کو خفیہ اداروں نے ڈیجیٹل نیٹ ورک انٹیلی جنس کا نام دے رکھا ہے۔ایکس کی سکور کی مدد سے کمپیوٹر صارفین کے اوقات تک کا پتہ چلایا جا سکتا ہے کہ فلاں وقت پر وہ کیا کر رہا تھا۔امریکی قانون کے مطابق امریکی شہری کی نگرانی یا جاسوسی کرنا غیرقانونی ہے مگر ایکس کی سکور کی مدد سے آج  امریکہ میں مقیم کوئی شہری بھی محفوظ نہیں ہے ان کی نجی زندگی کی بھی نگرانی کی جا رہی ہے۔ایکس کی سکور کی مدد سے خفیہ اداروں کے اہلکار کمپیؤٹر کے ذریعے  ہونیوالی فون کالز ریکارڈ کرسکتے ہیں۔حتی کے کمپیوٹرمیں موجود تمام ہسٹری بھی حاصل کی جا سکتی ہے کہ فلاں بندے نے اتنے دنوں انٹرنیٹ پر کیا کیا کام کیا اور کن سے رابطہ کیا۔ حیران کن امر یہ بھی ہے کہ خفیہ حکام کمپئیوٹر استعمال کرنے والے کا نام، اس کے کمپیؤٹر کا آ پی نمبر، کی ورڈز،وہ زبان جس میں وہ کمپیؤٹر استعمال کر رہا ہے اور وہ
 نیٹ ورک جس کے ذریعے وہ انٹرنیٹ استعمال کرتا ہے حاصل کر چکے ہیں اور یہ سب سپر ایکس کی سکور نیٹ ورک سسٹم کے ذریعے ہی ممکن ہوا ہے۔ امریکی نیشنل سکیورٹی ایجنسی کے مطابق انہوں نے سن2008میں ایکس کی سکور کی مدد سے 300 دہشت گردوں کو پکڑا تھا۔سن2012میں  نیشنل سکیورٹی ایجنسی نے فیصلہ کیا کہ ہر ای میل آئی ڈی اور اس ای میل کو استعمال کرنے والے کا نام،فون نمبر اور فون کرنے والے کی نگرانی کی جائے گی اور ریکارڈ رکھا جائے گا اور رکھا جا رہا ہے۔  ایڈورڈ سنوڈن  نے جون2013   میں گارڈین کو دوسرا انٹرویو دیا جس  میں ایکس کی سکور کے فنگشن کے بارے میں بتایا   ایڈورڈ سنوڈن   کے مطابق ای میلز تلاش کرنے کے لئے خفیہ اہلکار  ایکس کی سکور  سادہ طریقے سے آن لائن سرچ فارم میں رکھتے ہیں جس کے بعد ای میلز کا ریکارڈ تاریخ اور وقت کے حساب سے کمپؤٹر سکرین پر آنا شروع ہو جاتا ہے اس سافٹ ویئر (ایکس کی سکور) کی مدد سے ای میلز کے جوابات بھی پڑھے جا سکتے ہیں۔ ای میلز کے علاوہ ایکس کی سکور سافٹ ویئر کی مدد سے سوشل میڈیا کی بھی نگرانی کی جا سکتی ہے۔فیس بک چیٹ اور پرائیویٹ پیغامات بھی اب امریکہ کے خفیہ اداروں کی پہنچ سے دور نہیں ہے۔ ایکس کی سکور سافٹ ویئر کی مدد سے ہر اس شخص کے کمپیؤٹر کا  آئی پی نمبر حاصل کیا جا سکتا ہے جس نے انٹرنیٹ پر کسی بھی قسم کا کوئی بھی پیج وزٹ کیا ہو یا کھولا ہو۔ سن 2007کی امریکی نیشنل سکیورٹی ادارے کی اپنی رپورٹ کے مطابق اس وقت تک انہوں نے 8کھرب50 ارب کالز کا ڈیٹا سٹور کیا ہے۔سن2012 میں امریکی ادارے کے ڈیٹا ریکارڈ کے مطابق 20کھرب کالز کی معلومات موجود تھیں یہ فون کالز اور ای میلز کا ریکارڈ تھا۔ واشگٹن پوسٹ کے مطابق ایکس کی سکور سافٹ ویئر کی مدد سے امریکہ خفیہ ادارہ(NSA)روزانہ کی بنیاد پر ایک ارب 70کروڑ ای میلز اور فون کالز کی نگرانی کرتا ہے اور ان کا ڈیٹا سٹور کرتا ہے ایکس کی سکور سافٹ ویئر کی مدد سے انٹرنیٹ کا ڈیٹا قلیل عرصے تین سے پانچ دن تک سٹور کیا جا سکتا ہے۔ اس مشکل کو حل کرنے کے لئے اس ادارے نے(Multi-liesed system)  بنایا ہے جس کا نام پن وایل) Pin wale) رکھا گیا ہے جس کی معلومات کو پانچ سال تک سٹور کیا جا سکتا ہے۔نیشنل سکیورٹی  ایجنسی نے امریکی شہریوں کا ریکارڈ الگ اور دوسرے ممالک کا ریکارڈ الگ محفوظ کر رکھا ہے۔برطانوی نشریاتی ادارے گارڈین نے یہ رپورٹ بھی شائع کر رکھی ہے کہ مائیکرو سافٹ کمپنی نے بھی سی آئی اے اور ایف بی آئی کو اپنے سافٹ وئیر تک رسائی دے رکھی ہے۔امریکی اداروں نے جاسوسی کے لئے اور ڈیٹا سٹور کرنے کیلئے بڑی بڑی سافٹ وئیر کمپنیوں سے معاہدے کر لئے ہیں جن میں گوگل، مائیکرو سافٹ، فیس بک اور ایپل شامل ہیں۔مائیکرو سافٹ نے گزشتہ سال  skype متعاف کرایا جو آج کل بہت مقبول ہے سکائیپ کے مارکیٹ میں آنے  کے ٹھیک نو ماہ بعد امریکی اداروں نے اس کی بھی ریکارڈنگ شروع کر دی تھی۔
واٹر گیٹ سکینڈل کے 1972میں وقوع پذیر ہونے اوراس کے نتیجے میں اپنے صدر کواستعفیٰ دینے پر مجبور کرنے والے امریکی معاشرے نے اپنے اس سبق کو یاد  رکھنے کی بجائے35سال کے بعدجاسوسی کے غلط استعمال کواپنے ہر شعبہ میں رائج کر لیا ہے۔
راؤ شفیق نے 1972میں ٹھیک ہی کہا تھا ہمارے ہاں امریکہ کی سیاست کے گہرے اثرات پڑتے ہیں،اخبارات اور سوشل میڈیاپر دو خبریں اہم نظر آئیں ایک فوڈ اتھارٹی کی ڈائریکٹر کی انہار دودھ فیکٹری  پر چھاپے،اس کے او ایس ڈی بنائے جانے اور پھر اس سے تردید کرانے کی خبر،دوسری پی ٹی آئی کے سربراہ کی پریس کانفرنس جس میں انہوں نے 28ہزار ووٹوں کی حلقہ 122میں درآمد برآمد کا ذکر کیا ہے۔اگر یہ بات درست ہے تو یہ بھی واٹر گیٹ سکینڈل سے کم نہیں ہے 

Post a Comment