عقیل عباس جعفری
کربلا کوئی فسانہ نہ فسوں ہے ، یوں ہے
یہ تو اک سلسلہ کن فیکوں ہے یوں ہے
میرے دل سے بھی گزرتی ہے کوئی نہر فرات
میری آنکھوں میں جو یہ موجہ خوں ہے ، یوں ہے
ذکر آیا تھا ابھی حضرت زینب کا کہیں
’’ تو نے پوچھا تھا نمی آنکھ میں کیوں ہے ، یوں ہے‘‘
قیمت خلد ہے اک اشک عزائے شبیر
اب کوئی لاکھ یہ کہتا رہے یوں ہے ، یوں ہے
ان کی کوشش غم شبیر فنا ہوجائے
اور یہ غم کہ فزوں اور فزوں ہے، یوں ہے
پھر ہوئے مجھ کو عطا حرف پئے مدح و سلام
ان پہ روشن مرا احوال دروں ہے ، یوں ہے
قبر میں ہوگی زیارت مجھے مولا کی عقیل
موت جو میرے لیے وجہ سکوں ہے ، یوں ہے

Post a Comment