صبیحہ صبا کا نام  ذہن میں آتے ہی  بادِ صبا کے خوشگوار، خوشبودار جھونکے کا احساس ہوتا ہے۔ وہ اپنے نام کی طرح صبیح بھی ہیں اور صبا بھی، لطافت و نفاست ان کی شخصیت کا خاصا ہے۔ 
وہ ایک خوش جمال، خوش خصال، خوش فعال، خوش مقال خاتون ہیں، شاعری ان کی فطرت میں رچی بسی ہے اور ان کی شخصیت کا تعارف اور بنیادی حوالہ قرار پاتی ہے۔ ان کی شاعری ان کی خوبصورت شخصیت اور خوبصورت فکر کا اثبات ہے۔ صبیحہ صبا صاحبہ ادبی لحاظ سے بہت فعال ہیں۔ اردو منزل ڈاٹ کام کی مدیرہ اعلیٰ ہیں۔ پانچ شعری مجموعے ان کی پختگیء فن کا شاہکار ہیں۔ ہر شعری مجموعے کا رنگ زندگی کے متنوع رنگوں کی طرح مختلف ہے۔ 
انہوں نے زندگی کے بے شمار رنگوں سے اپنی شاعری کو سنواراہے۔ 
ڈاکٹر نزھت عباسی

علامہ اقبال نے تو وجودِ زن کو تصویرِ کائنات کے لیے لازمی قرار دیا، اور آج جبکہ زندگی کے ہر شعبے میں خواتین نمایاں کام کررہی ہیں، آج کی عورت زندگی کے ہر شعبے میں اپنی لازمیت بغیر کسی نسائی تحریک کے درج کروا چکی ہے۔ 
تخلیقِ ادب اظہارِ ذات و کائنات و تشکیل و تعمیرِ ذات و کائنات ہے۔ اور جب ہم اس ضمن میں یعنی اردو کی نسائی شاعری کے حوالے سے بات کریں تو ادا جعفری، پروین شاکر سے لے کر عہدِ حاضر میں فہمیدہ ریاض، کشور ناہید،ڈاکٹر فاطمہ حسن، شاہدہ حسن سے لیکر صبیحہ صبا تک ،میں سمجھتی ہوں کہ سکہّ رائج الوقت کا درجہ پاچکی ہیں، فکر اور اسلوب سے انفردیت پیدا کی ہے۔ 
ہماری اردو شاعری کی تاریخ عورتوں کی شاعرانہ فکر سے آراستہ ہے۔ ہمارے استحصالی معاشرے میں جب بھی اسے موقع ملا اس نے اپنی بہترین کارکردگی کا مظاہرہ کیا اور میں سمجھتی ہوں کہ اکیسویں صدی کی عورت جتنی تعلیم یافتہ اور باشعور ہے اس سے پہلے تاریخ میں کبھی نہیں تھی۔ صبیحہ صبا بھی ان خواتین میں ہیں جو آج کے زمانے کی عورت کی فکر کو سامنے لارہی ہیں۔وہ عورت کو ایک نسائی اور معاشرے کا  فرد سمجھتے ہوئے اس کے تشخص اور اسکی نفسی انفرادیت کو تسلیم کرواتی ہیں۔
             سو کھل جاتے ہیں سارے بھید مجھ پر
             میں جب دل کا دریچہ کھولتی ہوں 
ان کی شاعری کی عورت ایک ذہین اور باشعور عورت ہے جس کے اپنے تجربات اور مسائل ہیں، روحانی تنہائیاں اور احساسات و جذبات کی شکستگی بھی۔ 
             صلیبِ وقت پر لٹکی ہوئی ہوں 
                میں اپنا درد خود سے بانٹتی ہوں 

               یہ میرا وقت میرا آئینہ ہے 
               میں اس حیرت کدے میں جھانکتی ہوں  

              کسی کی ذات کی یہ کرچیاں ہیں  
               میں انسانوں کو ٹوٹا دیکھتی ہوں  
انہوں نے صرف  عورت ہی کے ذہنی اور روحانی کرب کو پیش نہیں کیا بلکہ وہ اپنے عہد کے حالات سے بھی بخوبی واقف ہیں، اپنی تہذیب، معاشرت، سیاست، قومی و بین الاقوامی معاملات و مسائل سے بھی آگاہ ہیں۔ ایک وسیع دنیا ان کے سامنے ہے۔ اور ان کی بصیرت و بصارت بہت گہری ہیں۔ 
               میرے ماحول میں جو تلخی ہے  
               اس کا سارا وبال غزلوں میں 
میں صبیحہ صبا کو اس لحاظ سے خوش نصیب سمجھتی ہوں کہ انہیں اپنے شریکِ حیات صغیر احمد جعفری کی مکمل سپورٹ حاصل ہے، ورنہ عام طور پر دیکھا جاتا ہے کہ اگر ایک گھر میں شوہر کے ساتھ بیوی بھی ادب سے وابستہ ہو تووہ کوفت محسوس کرتے ہیں بلکہ  بیوی اگر شوہر سے اچھا لکھ رہی ہو تو وہ حسد محسوس کرتے ہیں بلکہ اس کی برتری تسلیم ہی نہیں کرتے، مرد بیوی کی ادبی آزادیوں کو پوری طرح قبول نہیں کرتے۔ ایسی کئی مثالیں ہمارے سامنے موجود ہیں۔ مگر دوسری طرف صبیحہ صبا اور صغیر احمد جعفری کی بھی مثال ہے۔

صبیحہ صبا کی فکر کا دائرہ بہت وسیع ہے۔ صرف یہ نہیں کہ وہ عورت ہیں تو اسی حوالے سے بات کریں۔ وہ انسان اور انسانیت پر صدیوں سے رکھے جانے والے ظلم و ستم اور جبر و استحصال کے خلاف بھی آواز بلند کرتی ہیں۔

                جھلسی ہوئی اک درد کی ماری ہوئی دنیا
                اک درد کے آسیب سے ہاری ہوئی دنیا 
                قدرت نے سجایا تھا اسے لالہ و گل سے 
              کیا ہم نے دیا جب سے ہماری ہوئی دنیا 

              سفاکی کا زہر انڈھیلا  جاتا ہے 
              انسانوں کے خون سے کھیلا جاتا ہے 

             غریب  ِ شہر کی کیا داستاں ہے 
              وہ کھائے غربتوں کی مار خالی 

              اندھا راج نہ ڈھائے ظلم زمانے پر 
              دل میرا ہر روز دہائی دیتا ہے  
شاعرہ کے ان افکار سے پتہ چلتا ہے کہ وہ معاشرے میں صدیوں سے لاچار و مجبور انسانوں کا دکھ کتنی شدت سے محسوس کرتے ہیں۔ معاشرہ ہر کمزور اور بے بس انسان کو خون کے آنسو رلاتا ہے۔ ہر جگہ گھر، معاشرہ، ملک اور بین الاقوامی طور پر جابرانہ اور استحصا لی عنا صرانسانیت کو شکار کرتے ہیں، ان سے جینے کا حق چھین لیتے ہیں۔ ان حقیقتوں سے آشنائی ان کے دل کو درد آشنا کردیتی ہے۔ وہ اپنی ذات کے نہاں خانوں سے نکل کر دنیا کی وسعتوں سے ہم کنار ہوتی ہیں،دردِ انسانی نے ان کے دل کو کتنا وسیع کر دیا ہے۔آگہی کی یہ مسافت ان کی فطری حساسیت کے ساتھ آمیز ہوکربے حس معاشرے پر دل گرفتہ ہے۔وہ نہ صرف سماج کی جبریت،تہذیبی ومعاشرتی مسائل اور معاملات کو بیان کرتی ہیں۔بلکہ سامراجی قوتوں، منافقتوں، دہشت گردی،ریاکاری، فرقہ پرستی، اخلاقی اقدارکے زوال کا بھی نوحہ پڑھتی ہیں ان کی شاعری میں موضوعات کی وسیع فکری دنیاموجود ہے۔  عصرِ حاضر میں ہونے والے سارے واقعات  و حادثات پر ان کی گہری نظر ہے۔اور یہ ان کے شعور و وجدان کا تجربہ بن کر ان کے تخلیقی عمل میں جذب ہوکرشعر کی صورت  میں ہمارے سامنے آتے ہیں وہ اپنی تخلیقی شاعری میں نت نئے رنگ بھر رہی ہیں۔
کیا یہ دنیا برائے دنیا ہے
یا کوئی انتہائے  دنیا ہے
ان کا ٖغزلیہ آہنگ بہت مترنم ہے  چھوٹی اور طویل بحروں میں یکساں موسیقیت اور نغمگی ہے۔
جو سبھی کے دل پہ گذری وہ سبھی ہے اس میں لیکن
میری داستاں الگ ہے میری داستاں کے اندر
وہی میری وجہ عروج تھا وہی میری وجہ زوال تھا
وہی وجہ رنگ ِ طرب رہا۔ وہی وجہ رنگِ زوال تھا
وطن سے محبت کا اظہار بھی کئی جگہ موجود ہے۔یہ پردیس میں رہنے والوں کا ایک سچا جذبہ ہے۔جو صبیحہ صبا کے کلام میں بھی نظر آتا ہے
وطن سے مہر و وفا،جسم و جاں کا رشتہ ہے
وطن ہے باغ تو پھر باغباں کا رشتہ ہے
وطن سے دور رہیں یا وطن میں بس جائیں 
یہ مہر باں سے کسی مہر باں کا رشتہ ہے
وطن پرجان نثار کرنے والے شہیدوں کے بارے میں لکھتی ہیں 
وہ سرحدوں کے مسافر وہ آبروئے وطن
 وہ جاں نثار گئے،جاں نثار کرتے ہوئے
صبیحہ صبا کی شاعری احساس دلا رہی ہے۔ اور یہ باور کرا رہی ہے کہ اگر ہم اپنے بدلتے ہوئے گردو پیش، عالمی سطح پر وقوع پذیر ہونے والی انفرادی اور اجتماعی تبدیلیوں کو سمجھنا چاہتے ہیں اور اس حوالے سے انسانی ردعمل کو بھی پرکھنا چاہتے ہیں تو ہمیں عورتوں کی جداگانہ تخلیقی آواز،ان کے طرز فکر اور طرز احساس کو بطور خاص اہمیت دینی ہوگی۔
  
       


1 تبصرے

ایک تبصرہ شائع کریں