خود بھیجتا ہے آپ پہ اللہ بھی درود
لکھا ہوا ہے صاف خدا کی کتاب میں 
یہ شعر ریاض ندیم نیازی کی  ہدیہ ہایئے نعت کے مجموعے،،جو آقا کا نقشِ قدم دیکھتے ہیں،، سے مآخذ ہے،جو اس بات کا اظہار بھی ہے کہ نعت  کہنے کا آغاز کب سے ہوا۔
نعت گوئی سنتِ خدا ہے،سب سے پہلے اپنے محبوب کی تعریف خود اللہ تعالیٰ نے کی۔روایات کی رو سے نعت کی روایت کا آغازاس وقت ہو گیا تھاجب حضرت آدم کی تخلیق ہوئی۔آدم نے نورِ محمدی کو دیکھ کر پوچھا کہ اے میرے رب یہ کیسا نور ہے تو ارشادِ باری ہوا کہ یہ نور اس نبی کا ہے جو تیری اولاد میں سے ہو گا۔

اس نور نے،اس روشنی نے دنیا کی ظلمتوں کو صبحِ درخشاں کا جمال بخشا۔اسی روشنی سے مہرو ماہ نے اکتساب کیا،اسی روشنی نے آیئنہ ِ کائنات کو آب بخشی،اسی روشنی میں کن فکان کا باب کھلا۔اسی روشنی سے تخلیق کے عمل کا آغاز ہوا  گویا نورِ اول ہی خدا،انسان اور کائنات کی معرفت کا وسیلہ ہے یہی نور شعور و آ گہی ہے۔
روشنی کے سب حوالے آپ سے ہیں منسلک
دن تو دن ہیں،نور سے راتیں درخشاں ہو گئیں 
ریاض ندیم نیازی کا نعتیہ مجموعہ،،جو آقا کا نقشِ قدم دیکھتے ہیں،، نظر نواز  ہوا تو روشنی کی تجلی نے کہا کہ ریاض ندیم نیازی نے نعت کے وسیلے سے نورِ اول کے مظاہر کو بڑی محنت اور احتیاط سے شعر کے قالب میں ڈھالا ہے۔ وجہِ تخلیقِ کائینات کے معجزات و کمالات کو تخلیق کے کینوس پر اس طرح پینٹ کیا ہے کہ حسن،تقدس اور رفعت کے سارے معیار  بھی قائم رہیں اور مدحت کا حق بھی ادا ہو جائے۔ شاعر کا عقیدہ ہے کہ وہ نورِ اول کی مدح سراہوں  کی اس  صف میں کھڑا ہے جس کی ابتدا رب کریم نے خود کی پھر آنحضرت کے اس دنیا میں آنے سے ایک ہزار سال پہلے یمن کے بادشاہ تبع اول حمیری نے ثنا خوانی کی،حضور کے ایک بزرگ حضرت کعب بن لوی(حضور کی ولادت سے560سال قبل)نعتیہ اشعار کہہ گئے،آپ کی والدہ ماجدہ سیدہ آمنہ نے آپ کو حضرت حلیمہ سعدیہ کے سپرد کرتے ہوئے آپ کی تعریف کو شعر کی زبان دی۔اللہ اللہ کیا رتبہ ہے حضور کی مدحت کرنے والوں کا۔ورقہ بن نوفل جو انجیل کا جلیل القدر عالم تھا، جب نزول ِ وحی کا واقعہ سنتا ہے تو بے ساختہ حضور کی شان میں تیرہ اشعار کہہ دیتا ہے،مدحت رسول کہنے والوں میں کھڑے ریاض ندیم نیازی نعت کی تعریف کرتے ہوئے کہتے ہیں۔
خود خدا کرتا ہے قرآن میں مدحت ان کی
اس لئے نعت کو تائیدِ خدا کہتے ہیں 
نعت وہ لفظ ہے جسے شیرِ خدا علیِ مرتضیٰ نے سب سے پہلے رسولِ خدا سے منسوب کیا۔
ریاض ندیم نیازی شعورِ نعت کو نورِ اول کی نظرِ کرم کا معجزہ سمجھتے ہیں۔
جب سے لفظوں میں بسایا آپ کا حسنِ خیال
ذکر ہوتا ہے زمانے میں مری تحریر کا
ایک اور خصوصیت اس مجموعے کی یہ ہے کہ غالباََ ریاض ندیم نیازی وہ تیسرے شاعر ہیں جنہوں نے دیوانِ غالب کی زمینوں میں پورا مجموعہ لکھ دیا۔بحروں کی حد تو یہ زیادہ مشکل کام نا تھا اس لئے انہوں نے اپنے موضوعاتِ فکر اور طرزِ اظہار کو ویسا ہی رکھا جو ان کے شعری مزاج کا حصہ ہیں البتہ  قوافی اور ردیف کا استعما ل ایک کٹھن مرحلہ تھاجسے ریاض ندیم نیازی نورِ اول کی نظرِ کرم سے نہایت آسانی سے نبھا گئے۔
ہے نعت ندیم آج یہ غالب کی زمیں میں 
اندازِ بیاں اس کا ان اشعار میں آوے
ان سے پہلے ایاز صدیقی جن کا تعلق ملتان سے ہے غالب کی زمینوں میں نعتیں کہہ گئے جو،،ثناٗے محمد،، کے نام سے کتابی شکل میں شائع ہوئیں اس کے علاوہ بشیر حسین ناظم مرحوم نے غالب کی زمینوں میں ہدیہ ِ نعت کی سعادت حاصل کی جو،،جمال جہاں فروز،، کے نام سے کتاب بند ہوئیں۔
ممدوح سے محبت اور اس اس کی توصیف کے کئی محرکات ہو سکتے ہیں۔جناب رسالت مآب کے جمال کی مصوری کوئی آسان کام نہیں ہے۔جمالِ صورت ہو یا جمالِ سیرت،اسے شعر کی روشن سطح سے منعکس کرکے قاری کے دل کی سلیٹ پر اتارنا کمالِ فن کا مطالبہ کرتا ہے۔ریاض ندیم نے اپنے ممدوح کے جمالِ خفی و جلی کا بیان بڑے محتاط انداز اور دل پزیر اسلوب و پیرائیہ میں کیا ہے۔
کیا شان ہے رسولِ خدا کے جمال کی
وہ جس طرف گئے ہیں ہر اک شے نکھر گئی
دونوں جہاں کی جس میں سمائی تھیں وسعتیں 
ان کی نگاہِ لطف سے جھولی وہ بھر گئی
ریاض ندیم نیازی کے اس سے پہلے بھی نعتیہ مجموعے شائع ہو چکے ہیں جن میں،،خوشبو تری جوئے کرم،، ہوئے جو حاضر درِ نبی پر،،اور بحرِ تجلیات،، شامل ہیں 
ان مجموعوں اور زیرِ مطالعہ مجموعے سے ان کی فکر کی گیرائی،سوچ کی گہرائی،خیال کی وسعت،تخیل کی بلند پروازی،خیال کو الفاظ کے گلدستے میں سجا کر پیش کرے کا سلیقہ سامنے آتا ہے۔نور ِ اول سے ان کی عقیدت نے ریاض ندیم کی نعتوں میں والہانہ پن پھر دیا ہے
ندیم اتنا بڑا اعزاز مجھ کو ہو گیا حاصل
خدا کا شکر،میں مداح ہوں ممدوحِ یزداں کا

Post a Comment