عاصم واسطی
موجود بے وجود سے پیدا کرے کوئی
مانیں اُسے خدا اگر ایسا کرے کوئی
انبوہِ بیکراں ہے مقامِ حصول ہے
کتنا دراز دستِ تمنا کرے کوئی
لایا ہوں میں نکال کے چشمِ گماں سے اشک
اِس قطرۂ نہال کو دریا کرے کوئی
مانا کہ تو نے کی ہیں زمینیں ہزار خلق
دیکھیں کسی زمین کو دنیا کرے کوئی
جب تک نہ ارد گرد ہوں خود خیز آئنے
ممکن نہیں کہ اپنا تماشا کرے کوئی
وحشت میں ہو گریز جراحت سے کس لیے
ہے زخم، زخمِ عشق تو گہرا کرے کوئی
ممکن نہیں ہے وسعتِ بے حد سمیٹنا
کیونکر حسابِ تنگئی صحرا کرے کوئی
کارِ جہاں، عبادتِ کامل، نمازِ عشق
اِتنے قلیل وقت میں کیا کیا کرے کوئی
عاصمؔ نشاطِ اجر ہے احسان سے کشید
ہرگز بُرا نہیں اگر اچھا کرے کوئی

Post a Comment