کتے تیتھوں اتے

شینن ڈوا کے ہیڈکوارٹر شہر لیورے میں جس موٹل میں ہم ٹھہرے،اس کی پچھلی جانب ایک وسیع وعریض لان تھا،ہمیں کمرے بھی اسی  طرف ملے۔ کمروں کی چابیاں تھما کر موٹل کا مالک کم منیجر وہاں سے جا چکا تھا۔ہم نے سامان کمروں میں رکھا۔ابھی دوپہر کے تین بجے تھے،عدیل کہنے لگا ابھی کچھ دیر ریسٹ کرتے ہیں۔پھر کچھ دیر باہر لان میں بیٹھیں گے،چائے پیئیں گے۔آج کا دن تو یہیں لیورے شہر کی سیر کریں گے۔کل صبح لیورے کیونز دیکھنے چلیں گے سنا ہے بہت خوبصورت جگہ ہے۔ہمارے کمرے ساتھ ساتھ  اور ایک دوسرے سے منسلک تھے۔عدیل اور رابعہ ساتھ والے کمرے میں چلے گئے۔دونوں کمروں کے درمیان دروازہ ہونے کی سب سے زیادہ خوشی عنایہ کو تھی کہ کبھی وہ ایک کمرے میں آ رہی تھی تو کبھی دوسرے میں۔اس کے اس آنے جانے نے عدیل اور رابعہ کو  ریسٹ نہیں کرنے دیا۔تھوڑی ہی دیر بعد انہوں نے ہمارے کمرے میں جھانکا اور کہنے لگے،آئیں کچھ دیر لان میں بیٹھتے ہیں،ہم تو پہلے ہی تیار بیٹھے تھے۔باہر لان میں اس وقت کوئی اور نہیں تھا،شایددوسرے کمروں والے صبح ہی صبح اپنے پروگرام کے لئے سیر اور گردونواح میں واقع تفریح گاہیں دیکھنے نکل گئے ہوں گے۔ابھی ہم لان میں آ کر بیٹھے ہی تھے کہ ہمارے کمروں سے دو کمرے چھوڑ کر جو کمرہ تھا اس میں رہائش پذیرفیملی واپس آ گئی۔تین چار افراد کی یہ فیملی گاڑی سے اتری تو ساتھ ہی ایک کتا بھی اتر کر ان کے ساتھ کمرے میں چلا گیا۔کچھ دیر بعد وہ ساری فیملی اپنے کتے سمیت لان میں آ گئی۔لان میں آ کرانہوں نے کتے کی زنجیر کھول دی۔کتے کی مالکن نے ایک گیند دور پھینکی،کتا بھاگتا ہوا گیا اور گیند کو منہ میں دبائے واپس آ گیا۔وہ فیملی اپنے کتے کے ساتھ دور بیٹھی کھیلنے میں مصروف تھی۔لان کے درمیان باربی کیو کے لئے ایک ہٹ بنا ہوا تھا۔عنایہ بھاگتی ہوئی جاتی۔خیالی چائے دادا ابو اور دادی کے لئے بنا کر لاتی،کچھ دیر کے بعد پیالیاں واپس ہٹ  کی طرف لے جاتی۔کچھ دیر یہ آنکھ مچولی جاری رہی پھر اس کی دادی بھی اٹھ کر اس کے پاس ہٹ میں چلی گئیں۔اتنے میں اس فیملی نے جو گیند گھمائی تو وہ سیدھی ہٹ کی جانب آئی،کتا بھاگتا ہوا گیند کی طرف لپکا،عنایہ اور اس کی دادی سہم گئیں کہ کتا ان پر حملہ آور ہو رہا ہے۔جس وقت یہ وقوعہ ہو رہا تھا میں کمرے سے ویڈیو کیمرہ لینے گیا ہوا تھا۔کیمرہ لے کر میں کمرے سے باہر آ رہا تھا کہ اچانک مجھے عنایہ کے رونے اور اس کی دادی کی چیخ سنائی دی،میں نے لان کی جانب دیکھا تو کتا ہٹ کی جانب لپک رہا تھا،دادی نے عنایہ کو اپنی باہوں میں سمیٹ رکھا تھا اور دونوں زور زور سے چیخ رہی تھیں۔ ان کی چیخیں سن کر کتے کی مالکن بھی کتے کے پیچھے بھاگنے لگی۔کیا،چیخیں سن کر ہٹ سے پہلے ہی رک گیا۔اتنے میں کتے کی مالکن نے وہاں پہنچ کر کتے کے گلے میں زنجیر ڈال دی اور کہنے لگی یہ حملہ کرنے نہیں،اس بچی سے کھیلنے آ رہا تھا،یہ بھی تو ابھی بچہ ہی ہے۔وہ  فیملی تو معذرت کر کے چلی گئی لیکن مجھے امریکہ کی گلی کوچوں میں گھومتے وہ تمام کتے یاد آ گئے جو کسی نہ کسی گوری کے ساتھ بڑی شان سے چل رہے ہوتے تھے یا کسی نہ کسی گوری یا کالی کی گود میں براجمان اپنی معصوم سی صورت کے ساتھ دنیا دیکھ رہے ہوتے تھے۔چلتے چلتے یہ گوریاں یا کالیاں بڑے پیار سے ان کتوں کا بوسہ بھی لے لیتی تھیں،ایک دو جگہ میں نے یہ بھی دیکھا تھا کہ کتے کا بوسہ لینے کے بعد اپنے ساتھ چلتے اپنے کسی پیارے کے ہونٹوں کا بوسہ لے کراسے کچھ کہہ رہی ہوتی تھی شاید یہ کہ پیارے تم برش اچھی طرح کیا کرو تمہارے منہ سے رات کی پی ہوئی شراب کی بو آ رہی ہے،حالانکہ کچھ دیر پہلے اپنے کتے کا بوسہ لیتے ہوئے اسے ایسی کوئی شکایت کتے سے نہیں ہوئی تھی۔
پاکستا ن میں برگر فیملیوں کے علاؤہ کتا پالنے کا ایسا کوئی خاص رواج نہیں ہے۔یہاں گلیوں کے آوارہ کتے خاصے خطرناک ہوتے ہیں۔ عنایہ کی دادی بلاوجہ نہیں چیخی تھیں،کتے کو لپکتے دیکھ کر انہیں عدیل کے بچپن کا وہ واقعہ یاد آ گیا تھا جب لاھور میں سمن آباد کی ڈونگی گراؤنڈ میں شارٹ کٹ کے چکر میں گراؤنڈ میں موجود آورہ کتوں کی ایک ٹولی میں سے ایک کتا عدیل اور اس کی ماں کو دیکھ کر ان پر لپکا تھا اور ماں نے عدیل کو بچانے کے لئے اسے اپنی باہوں میں بھر لیا تھااور ساتھ ساتھ حسبی اللہ کا ورد کر رہی تھی،اس وقت بھی ایک لمحے کے لئے خوف  کے عالم میں چیخ اٹھی تھی آج کی طرح۔
یہاں امریکہ میں،کتا،انسانوں جیسے حقوق کا حامل ہے۔امریکہ میں جہاں انسانی حقوق کی تنظیمیں ہیں وہیں کتے کے حقوق کے تحفظ کے لئے بھی متعدد سوسائیٹیاں ہیں جو انسانوں سے زیادہ ان کے حقوق کا تحفظ کرتی ہیں۔ان کی تنقید کا زیادہ تر نشانہ کوریا،چین اور ان ملکوں کے لوگ ہوتے ہیں جو ان کتوں کواپنے پیٹ کا ایندھن بنا لیتے ہیں۔
ہم پاکستان میں جس محکمے میں کام کرتے تھے وہاں کوریا اور چین نے بہت منصوبے مکمل کئے تھے اور اب بھی کر رہے ہیں۔اپنے عرصہِ ملازمت میں متعدد بار ہم صحافیوں کی ٹولیوں کو ان منصوبوں پر لے کر گئے،وہاں کے مقامی لوگوں نے بتایا کہ ہمارے علاقے میں کتوں اور سوروں کی بہتات تھی،رات کے سناٹے میں کتوں کے بھوکنے کے علاؤہ کچھ سنائی نہیں دیتا تھا لیکن جب سے ان پروجیکٹوں پرغیر ملکیوں نے کام شروع کیا ہے کتوں نے بھوکنا بند کر دیا ہے اور نظر بھی نہیں آتے۔یہ بات ہمیں واجد نے بھی بتائی تھی جو چین میں 20 سال سے زائد وقت گذار کر واپس آئے تھے کہ چین، جاپان اور کوریا میں کتے،بلی،سور بلکہ ہر چیز کا گوشت کھا لیا جاتا ہے،یہ تو اس نے ہمیں نہیں بتایا کہ وہ یہ گوشت کس طرح کھاتے ہیں لیکن یہ ضرور بتایا تھا کہ ڈوگ پارٹی وہاں کی خاص پارٹی کہلاتی ہے اور پوڈل سوپ ان کی مرغوب غذا ہے۔
امریکہ کے کئی سٹوروں میں پیٹس کی دکانیں بھی ہوتی ہیں جہاں چھوٹے بڑے مختلف نسلوں کے کتے بلیاں ملتی ہیں۔جال دار پنجروں میں بند یہ جانور امریکیوں کو اپنی طرف کھینچتے ہیں۔انہی دکانوں سے ان جانوروں کی سیل بند ڈبوں میں خوراک بھی ملتی ہے۔ میں نیبہت سے سٹوروں میں جب رابعہ اور عنایہ کی دادی مختلف چیزیں دیکھ رہی ہوتی تھیں توہم نے ایک بار یونہی تجسس میں ایک سرخ و سہنری رنگ کا ڈبہ اٹھا کر دیکھا تھا۔امریکہ میں خوراک کے ڈبوں پر اندر موجود خوراک کے پورے اجزاء لکھے ہوتے ہیں۔یہ خوراک چاہے انسانوں کی ہو یا حیوانوں کی۔میں نے ڈبے پر لکھے اجزاء پڑھے تو حیران رہ گیا،وہ خوراک،کتوں کی خوراک، اتنی توانائی بخش تھی کہ پاکستان میں اتنی توانائی والی غذاانسانوں کو بھی میسر نہیں ہے۔اس سٹور سے جانوروں کے شیمپو،پٹے،زنجیریں اور برش بھی ملتے ہیں۔سردیوں میں کتوں کو گرم رکھنے کے لئے خوبصورت رنگوں کے جیکٹ نما لباس بھی تھے وہاں،جو ان کی کمر پر ڈال کر نیچے پیٹ پر کلپ کے ساتھ باندھ دئیے جاتے ہیں۔
امریکہ میں کتوں کے بیوٹی سیلون،انہیں نہلانے،دھلانے،شیمپو کر کے بال سنوارنے کی سہولتیں بھی دستیاب ہیں۔اب تو کتوں کے ماہر نفسیات بھی وہاں دستیاب ہیں جو کتوں کی نفسیاتی الجھنوں کو دور کرتے ہیں۔
یہ سب چونچلے مراعات یافتہ کتوں کے لئے ہیں۔ہمارے ہاں کے ڈونگی گراونڈ میں لوگوں پر بھونکنے اور کاٹنے کے لئے دوڑنے والے کتوں کے لئے نہیں ہیں،مراعات تو خیریہاں انسانوں کو بھی حاصل نہیں ہیں،فیض احمد فیض نے نقش فریادی ۔میں جو نظم کتے لکھی ہے شاید وہ ہمارے ہاں کے غیر تربیت یافتہ ہر قسم کے کتوں کی نمائندگی کرتی ہے
یہ گلیوں کے آوارہ بے کار کتے
کہ بخشا گیا جن کو ذوقِ گدائی
زمانہ کی پھٹکار سرمایہ ان کا
جہاں بھر کی دھتکار ان کی کمائی
نہ آرام شب کو،نہ راحت  سویرے
غلاظت میں گھر،نالیوں میں بسیرے
جو بگڑیں تو اک دوسرے سے لڑا دو
ذرا ایک روٹی کا ٹکڑا دکھا دو
ہر ایک کی ٹھوکریں کھانے والے
یہ فاقوں سے اکتا کر مر جانے والے
یہ مظلوم مخلوق گر سر اٹھائے
تو انسان سب سرکشی بھول جائے
یہ چاہیں تو دنیا کو اپنا بنا لیں
یہ آقاؤں کی ہڈیاں چبا لیں
کوئی ان کو احساسِ ذلت دلا دے
کوئی ان کی سوئی ہوئی دم ہلا دے
خیر بات ہو رہی تھی لیورے موٹل کے باہر کتے کے لپکنے اور اس کی مالکن کے تاویلیں پیش کرنے کی۔ یہ انہی کتوں  میں سے ایک کتا تھاجن کے ماتھے پربقول بلھے شاہ لکھ دیا گیا تھا کہ کتے تیتھوں اتے۔جن کے خاموش ہونے پر،بات نہ کرنے پر،پاس سے گذرتی جوان کتیا کو دیکھ کر بھی دم نہ ہلانے پر تشویش کا اظہار کیا جاتا ہے اور ماہرِ نفسیات کو بلایا جاتا ہے۔ ہم خاموش رہے کہ وہ امریکی کتا تھا جسے وہاں بہت سارے حقوق حاصل تھے اور اپنے گھر میں تو کتا شیر  ہی ہوتا ہے۔

2 تبصرے

  1. یہ سفرنامہ بہت دلچسپ ہے
    کب کتابی شکل میں یہ آئے گا؟

    ہے رخا صدیقی کا اسلوب خوب
    داد یہ اہلِ نظر سے پائے گا
    احمد علی برقی اعظمی

    جواب دیںحذف کریں
  2. یہ سفرنامہ بہت دلچسپ ہے
    کب کتابی شکل میں یہ آئے گا؟

    ہے رضا صدیقی کا اسلوب خوب
    داد یہ اہلِ نظر سے پائے گا
    احمد علی برقی اعظمی

    جواب دیںحذف کریں

ایک تبصرہ شائع کریں