امریکی پاک ٹی ہاوس


ہمیں شینن ڈوا سے واپس آئے تین چار روز ہو گئے تھے۔اب اگلا پروگرام نیویارک جانے کا تھا۔اس پروگرام پر عملدرآمد میں ابھی آٹھ دس دن باقی تھے۔اگرچہ امریکہ کا دارالحکومت واشنگٹن ڈی سی ہے لیکن اس کا دل نیویارک ہے۔وہ کہاوت پا کستان میں مشہور ہے نا،،جنے لہور نئی دیکھیا او جمیا ای نئیں،،یعنی جس نے لاھور نہیں دیکھا وہ پیدا ہی نہیں ہوا۔نیویارک دیکھنا اس لئے بھی ضروری ہو گیا تھا کہ جو امریکہ آئے اور نیویارک نا جائے وہ سیاح ہی نہیں۔نیویارک میں دیکھنے کے لئے بہت کچھ ہے۔
نیویارک جانے سے پہلے اب ہمارا زیادہ تر وقت ڈاؤن ٹاون کی گلیوں کی گرد چھانتے گذر رہی تھی،گرد چھاننا تو محاورہ کے طور پر لکھا گیا ورنہ گرد کا تو وہاں نام و نشان بھی نہیں تھا۔ڈاؤن ٹاون میں  چھوٹے بڑے سٹورزایسے ہی تھے جیسے لاھور میں ماڈل ٹاؤن میں لنک روڈ پر ہیں،کھانے پینے کی دکانیں ہیں،فلم دیکھنا ہو تو سنیما بھی موجود ہے،معیار کے اعتبار سے اچھے سٹور بھی ہیں اور ون ڈالر شاپ بھی ہیں۔ایک روز گزرتے ہوئے میری نظر ایک شاپ پر پڑی۔میں نے دیکھا کہ شاپ کے اندر اور باہربچھی ہوئی میز کرسیوں پر براجمان خواتین وحضرات نہایت یکسوئی سے یا تو کچھ لکھ پڑھ رہے تھے یا ان کے آگے لیپ ٹاپ کھلے ہوئے تھیجن پر یہ لوگ کام کر رہے تھے۔میں نے چلتے چلتے رابعہ سے پوچھا 
،،یہ کوئی دفتر ہے کیا؟،،
اس نے کہا
،،نہیں ابو،یہ دفتر نہیں ہے،یہ ایک مشہور کافی شاپ کی ایک چین ہے،ایسے کافی شاپ ہر جگہ ہیں یہاں انٹرنیٹ وائی فائی کی سہولت دستیاب ہے۔آپ کافی کا ایک کپ  خریدیں اور پھر بے شک سارا دن یہاں کے آرام دہ ماحول میں بیٹھ کر پڑھیں،لکھیں،لیپ ٹاپ استعمال کریں کوئی بھی شخص ان سے نہیں پوچھتا کہ آپ آٹھ دس گھنٹے سے ایک کپ کافی خرید کر یہاں کیوں بیٹھے ہوئے ہیں بلکہکافی شاپ کے مالکان خوش ہوتے ہیں کہ ان کی کافی شاپ پڑھے لکھے افراد کا گڑھ ہے۔مجھے بے ساختہ برسوں پہلے کا پاک ٹی ہاوس یاد آ گیاجس کی ہر ٹیبل پر کوئی نا کوئی نامور ادیب،نواردانِ ادب کو لئے بیٹھا نظر آتا تھا۔ایک میز پر اسرار زیدی مرحوم بیٹھے نظر آتے تھے،دیوار کے ساتھ رکھی ہوئی تنہا کرسی پر زاہد حسین ہمیشہ کتاب پڑھتے نظر آتے تھے،بخش الہی وقفے وقفے سے،یا کسی نئے آنے والے کی تواضح کے لئے چائے مہیا کر رہا ہوتا تھا،پاک ٹی ہاوس کا روزانہ کا منظرنامہ کچھ ایسا ہی ہوتا تھا وہاں بھی کوئی کسی سے نہیں پوچھتا تھا کہ میاں گھنٹوں سے یہاں کس سلسلے میں بیٹھے ہو۔خالد احمد مرحوم سے بھی ہماری پہلی ملاقات بھی یہیں ہوئی تھی جب ایک تقریب کے لئے ہم ادیبوں کو ساھیوال کی اس تقریب کے لئے مدعو کرنے آئے تھے،بعد میں تو خالد احمد سے روزانہ ملاقات ہونے لگی کیوں کہ وہ واپڈا  کے شعبہ تعلقاتِ عامہ میں  ملازم تھے اور ہماری بھی وہیں تعیناتی ہوئی تھی۔پاک ٹی ہاوس کی ٹیبل،چائے کا ایک ہاف سیٹ اور بیٹھنے کا وقت مقر نہیں۔
عدیل کے فلیٹ سے سڑک کی دوسری جانب واقع پارکنگ لاٹ کے ساتھ بنے ہوئے ہال سے ہفتہ اور اتوار  کو کان پڑی آواز سنائی نہیں دیتی تھی،اتنا ہنگامہ ہوتا تھا کہ سونا حرام ہو جاتا تھا،ہفتے کی دوپہر سے ہی یہاں لڑکے لڑکیوں کی لائینیں لگ جاتی تھیں اور یہ لائینیں حدِ نظر تک نظر آ رہی ہوتی تھیں،یہاں موسیقی کا خاصا کریز ہے،چھٹی کا  دن ہو اور پسندیدہ فنکار کا کنسرٹ بھی تو لائینوں میں لگنا بنتا ہی ہے۔
اس روز بھی ہفتہ ہی تھا لائنیں بھی ویسے ہی لگی ہوئیں تھیں،میں فلیٹ کی کھڑکی سے باہر کا نظارہ کر رہا تھاآج لائنیں کچھ زیادہ ہی بڑی تھیں شاید کوئی بڑا فنکار آ رہا تھا،ان لائینوں میں ستواں سی ناک والی وہ امریکی لڑکی جو اپنے خدوخال سے امریکی نہیں لگتی تھی،آنکھوں میں خمار لئے تنگ سی شاٹ اور اس سے بھی شارٹ بلاؤز میں اپنے آپ کو چھلکاتی ہوئی محسوس ہو رہی تھیاور ساتھ کھڑے لڑکوں پر گری گری پڑ رہی تھی۔
ہمارے ہاں پیسے ہوں بھی تو سوچ سمجھ کر خرچ کئے جاتے ہیں،وہاں بچت کرنے کا کوئی اتنا خاص خیال نہیں کیا جاتا۔یہاں چھٹی کے دو دن دل کھول کر تفریح کی جاتی ہے اور پھرجب یہ کام کرتے ہیں تو انہیں اس کے سوا کچھ ہوش نہیں ہوتا۔
وہ امریکن لڑکی جو ہفتے کی رات خمار میں خود کو چھلکا رہی تھی آج ڈاؤن ٹاؤن کے اس کافی ہاوس کے باہر لگی ہوئی ایک کرسی میز پر اپنا لیپ ٹاپ ٹکائے اپنے کام میں ایسی مصروف تھی کہ پہچانی نہیں جا رہی تھی،سنجیدگی اس کے چہرے پر طاری تھی۔لیپ ٹاپ کے ساتھ کتابوں کا ڈھیر تھا اور ایک کافی کا مگ بھی نظر آ رہا تھا،ایسا لگ رہا تھا کہ وہ کتابوں میں دفن ہو گئی ہو۔
ہم وہاں سے گذرتے چلے گئے،کیمونٹی ہال اور آئی میکس(سنیما) کی درمیانی سڑک سے ہم دائیں ہاتھ مڑ کر ہم ہول مارٹ چلے گئے۔رابعہ نے کچھ پھل،سبزی لینی تھی۔وہ وہاں ضرورت کی چیزیں دیکھنے لگی،عنایہ دادی کے ساتھ ہرچیز کے سٹال پر رکتی ہوئی آگے جا رہی تھی،وہاں جو چیز مجھے پسند آئی وہ وہاں لگی ہوئی فریش اورنج جوس کی مشین تھی جس کے اوپر والے حصے میں اورنج بھرے ہوئے تھے،اس مشین کے نیچے کی جانب نوزل لگی ہوئی تھی،ساتھ میں مختلف اوزان کی خالی پلاسٹک کی بوتلیں رکھی ہوئی تھیں جن پر اس میں جتنا جوس آ سکتا تھا اس کے مطابق قیمت درج تھی نوزل کے اوپرلگے بٹن کو دبائیں توبوتل تازہ پانی کی ملاوٹ سے پاک خالص جوس سے بھر جاتی ہے۔نا اورنج چھیلنے کی زحمت،نا جراثیم لگنے کا خوف،ناہیپاٹیٹس پھلنے کا خطرہ،ایکدم حفظانِ صحت کے مطابق خالص جوس۔مجھے تو اس کاایسا چسکا پڑا کہ ہر روز سیر کے لئے ڈاؤن ٹاؤن چلے جاتے تھے اور واپسی پر جوس کی لارج سائز بوتل ہمارے ساتھ ہوتی تھی۔




Post a Comment