محبت کے دھیمے سروں کی شاعرہ۔۔الماس شبی

بے رخی سے نہیں کرو رخصت
راستے میں اجل پڑے شاید
الماس شبی کی شاعری کسی نظر نہ آنے والے محبوب کے ساتھ ہم سخنی کا حاصل ہے اور ساتھ کے ساتھ لاحاصلی بھی ہے، اس حاصل اور لاحاصلی کی کشمکش نے اسے شاعر بنا دیا،وہ اپنے اندر کسی بستی کی تلاش میں ہے جہاں وہ ہجرت کر سکے۔ ابھی وہ کسی ہجر کے جہاں میں ہے۔
یہ فکر و فن کی نئی جہت ہے،الماس شبی کی غزلوں کے مطالعے سے میرا تاثر ہے کہ اسکے اشعار سادہ اور رواں رواں سے لگتے ہیں، کہیں بھی رکنے 

اور رک کر معانی کی تہوں تک پہنچنے کی ضرورت نہیں پڑتی۔شعر پڑھتے ہوئے کہیں بھی جھٹکا نہیں لگتا اور یہ بات صرف اور صرف اسی صورت میں پیدا ہو سکتی ہے جب شاعر خیال اور جذبے کو لفظ کے قالب میں ڈھالنے کا سلیقہ جانتا ہو۔دوسری بات شاعر ہ نے بہت سی باتیں نئے اور چونکا دینے والے انداز میں کی ہیں۔اس طرح کہ غزل کا رشتہ روایت سے بھی قائم رہے اور روحِ حاضر سے بھی۔
جب وہ مجھ سے کلام کرتا ہے 
دھڑکنوں میں قیام کرتا ہے
دن کہیں بھی گذار لے یہ دل
تیرے کوچے میں شام کرتا ہے
وہ فسوں کار اسقدر ہے شیبی
بیٹھے بیٹھے غلام کرتا ہے
غزل کی صدیوں پرانی داستان کو نئی طرز سے سنانا بڑا مشکل کام ہے اور الماس نے یہ کام نہایت آسانی اور مہارت سے کر دکھایا ہے۔
الماس شبی کی غزلیں فلسفیانہ تصورات سے الجھے بغیر دعوتِ فکر دیتی ہیں۔یہ غزلیں ہماری روح کو تغزل کی لذت سے آشنا کرتی ہیں۔غزلوں کی روانی، تازگی اور سحر کاری کو ان چند اشعار میں محسوس کیا جا سکتا ہے۔
غم ہنسی میں چھپا دیا ہو گا
چشمِِ نم نے بتا دیا ہو گا
بھول جانے کی اس کو عادت ہے
اس نے مجھ کو بھلا دیا ہو گا
ایک خط تھا ثبوت چاہت کا
وہ بھی اس نے جلا دیا ہو گا
یہی چھوٹی بحر میں کہی ہوئی الماس شبی کی غزلیں ان کی پہچان ہیں۔یہی ان کا بے ساختہ پن ہے،رہی سہی کسر ان کا صدا کار لہجہ پوری کر دیتا ہے۔
صدا کاری کی بات چلی ہے تو ان کی دو کتابوں کا ذکر کر دوں،ان میں ایک تو ان کی مکالمے کی کتاب ہے،،ابھی ہم تمہارے ہیں،،یہ کتاب میں نے یہاں امریکہ میں پڑھی، اپنے پنج ریڈیو پر سامعین کو کو اپنے سحر میں مبتلا کرنے یا یوں کہہ لیجئے کہ اپنی آواز کے زیروبم میں مسخر کرنے کے لئے انہوں نے مرد اور عورت کے درمیان مکالماتی نثر میں جو شاعری کی ہے اس کا جواب نہیں،اسی مکالماتی انداز کو تھوڑا تبدیل کر کے اور ایک کردار مکالمے سے غائب کرکے جو تحریر لکھی ہے وہ بھی زیرِ طبع ہے اور نام ہے،،کبھی ہم تمہارے تھے،،الماس شیبی کی پنجابی نظموں کی کتاب،،محبت عذاب،، شایئع ہو چکی ہے جبکہ اردو شاعری کا مجموعہ،،دیر سویر تو ہو جاتی ہے زیرِ طبع ہے۔
گجرات کی محبت خیز دھرتی پہ جنم لینے والی الماس شبی غز ل کی صدیوں پرانی داستانِ محبت رقم کئے جا رہیں ہیں،ان کی شاعری کا ایک بلیغ استعارہ درد سے وابستگی یعنی اداسی ہے۔یہ استعارہ پھیلتا ہے تو واصف کے ہر شعر کو اپنے دامن میں سمیٹ لیتا ہے۔شیبی نے غزل کی روایت کے پیشِ نظر یوں تو سینکڑوں مضامین اپنے شعروں میں پیدا کئے ہیں لیکن اس کی انفرادیت یہ ہے کہ ان سب پر اداسی کی چھاپ بہت گہری ہے۔جب شاعرانہ خیال کی روشنی اداسی کے پرزم سے ہو کر گذرتی ہے تو دھنک رنگ مضامین سامنے آتے ہیں لیکن ان رنگوں کو پرزم کے وجود سے علیحٰدہ بھی نہیں کیا جا سکتا۔ان موضوعات کی رنگا رنگی کے پیچھے سب سے دقیع حوالہ اداسی ہی بنتا ہے۔وہ اداس موسم سیمحبت کرتی ہیں کہ یہی موسم انہیں تخلیقِ شعر پر آمادہ کرتا ہے انہیں دل کی اداسی کا شدید احساس ہے لیکن وہ اس احساس کو حد سے بڑھی ہوئی قنوطیت میں تبدیل نہیں ہونے دیتں۔اداس موسم انہیں وحشت نہیں بخشتے بلکہ اس کے تخیل کے گیسو سنوارتے ہیں۔
یہ کون تم سے کہے
یہ روز روز درد کے جو سلسلے ہیں کم کرو
ذرا تو تم کرم کرو
جو روز روز آؤ گے جو روز روز جاؤ گے
کہاں تلک رلاؤ گے کہاں تلک ستاؤ گے
نہ مجھ پہ اب ستم کرو جو ہو سکے کرم کرو
۔۔۔۔۔۔
چلو یہ دھاگے زیست کے انگلیوں پہ ڈال کے
کھیلتے ہیں ہم ذرا بھولتے ہیں سب ذرا
کہیں اگر الجھ گئے تو پیار سے سلجھ گئے
محبوں کے کچھ دئیے جو کے ہم جلائیں گے
کبھی جلے کبھی بجھے،کبھی بجھے کبھی جلے
چراغِ زندگی اگر
تو مل کے ہم بچائیں گے
بچھڑ گئے تو زندگی کے پھول کھل نا پائیں گے
یہ کون تم سے اب کہے

Post a Comment