ڈاون ٹاون،سلور سپرنگ ،میری لینڈ


وہ ہفتے کی کھلی کھلی سی شام تھی جب ایئرپورٹ سے عدیل کے ٹوون ٹاور میں واقع فلیٹ میں پہنچے تو ساڑھے پانچ  بج چکے تھے۔گھر پہنچتے ہی رابعہ نے کہا بھی کہ ابو آپ تھک گئے ہوں گے تھوڑا آرام کر لیں لیکن وہاں وہ تھی جو ہمہ وقت چہچہاتی رہتی ہے اور اس کے دم قدم سے فڈلر لین پر واقع ٹوون ٹاور کا وہ فلیٹ ایسا پارک لگتاہےجہاں دنیا جہاں کے رنگ برنگے پکھیرو اڑتے پھرتے،اپنی اپنی بولیاں بولتے ہیں،وہ چپ ہوتی ہے تو ایسا لگتا ہے کہ پارک  خاموش ہو گیا ہو۔وہ کوئی اور نہیں،ایک چھوٹی سی ننھی سی،عدیل اور رابعہ کی آنکھوں کی ٹھنڈک،ابو(دادا) اور دادی کے دل کا چین،عنایہ ہے۔
عدیل کے فلیٹ پر اس ننھی گڑیا کی فقط موجودگی،وہاں زندگی کی روح پھونک دیتی ہے۔دادا ابو اور دادی کے آنے پر تنہائی کا شکار اس ننھی چڑیا کی چہچہاہٹ قابلِ دید تھی۔اس کا بس نہیں چل رہا تھا کہ وہ کیا کرے،آج عدیل کا فلیٹ نئی بہار پیش کر رہا تھا۔
اس کی محبت بھری ایکسائیٹمنٹ نے ہماری طویل مسافت کی تھکن چند لمحوں میں بھلادی تھی۔اگرچہ آنکھیں میں بھری نیند کچھ اور کہہ رہی تھی مگر دل کچھ اور کہہ رہا تھا۔ہم نے دل کا ساتھ دیا اور پڑنے والی رات تک جاگنے کا فیصلہ کیا۔
عدیل کا فلیٹ سنگل بیڈ روم اپارٹمنٹ ہے جس میں ایک جوڑے کی رہائش کی ہر چیز موجود تھی،رابعہ نے بڑے پیار سے اسے سنوارا ہوا ہے۔لاؤنج کے ساتھ ہی بیڈ روم تھاجس کا باتھ روم ساتھ ہی لیکن کمرے سے باہر تھا۔بیڈ روم میں ایک خاصی بڑی وارڈروب تھی۔لاؤنج کے ساتھ دیوار کے اندر کی طرف سٹیپ ان وارڈ روب تھی اسے سٹور بھی کہا جا سکتا ہے۔کمرے میں ایک اور الماری تھی جسے بچوں نے ہمارے آنے سے پہلے ہی خالی کر دیا تھا۔لاؤنج میں ایک صوفہ کم بیڈ موجود تھا،ہم نے بچوں پر زور دیا کہ ہم اس پر سوئیں گے وہ اپنے بیڈ روم میں ہی سوئیں لیکن وہ نا مانے اور ہمارا سامان کمرے میں پہلے سے خالی کردہ الماری میں رکھ دیا۔
عدیل کے ساتویں منزل پر واقع فلیٹ کی دیوار گیرکھڑکی سے باہر کا منظربہت حسین لگ رہا تھا۔میں نے ایک نظر ادھر

ڈالی،سامنے ہی ڈاؤن ٹاون لکھا نظر آ رہا تھا۔امریکہ میں ہر شخص اس اصطلاح کو استعمال کرتا ہے۔جس سے میرا جیسا نیا جانے والا کنفیوز ہو کر رہ جاتا ہے،یہی نہیں برطانیہ میں بھی یہ اصطلاح عام ہے،اس کا ذکر سب سے پہلے میں نے سعید ماموں سے سنا،سعید ماموں ہماری بیگم کے ماموں ہیں جو جوانی میں برطانیہ چلے گئے تھے،کسٹم پولیس میں ملازمت کی پہلے لندن میں رہتے تھے،ریٹائر ہوئے تو لندن کے ڈاؤن ٹاؤن میں رہنے لگے۔اس سے میرا اندازہ تھا کہ شہر سے ملحقہ علاقے کو ڈاؤن ٹاون کہتے ہیں۔لیکن امریکہ میں یہ اصطلاح صر ف سمت کا تعین کرنے کے لئے ہی مستعمل نہیں بلکہ شہر کے مرکز کو بھی ڈاؤن ٹاون کہا جاتا ہے۔
بیسویں صدی کے آغاز میں ای بروک لی اور اس کے بھائی بلیئر لی اول نے لی ڈویلپمنٹ کمپنی کی بنیاد رکھی جس کی بنا پر سلور سپرنگ ڈاؤن ٹاؤن کی ترقی کا آغاز ہوا۔اکیس ویں صدی کے آغاز میں سلور سپرنگ میں ترقی کے ثمرات نمایاں ہونے شروع ہوئے اور یہاں  سٹی پیلس کے نزدیک نئے بلاک تکمیل پذیر ہوئے۔ایک نیا آوٹ ڈور شاپنگ پلازہ جسے ڈاؤن ٹاؤن سلور سپرنگ کا نام دیا گیا،کو دوبارہ تعمیر کیا گیا،سن2002 میں سلور سپرنگ ڈاؤن ٹاون کی 160سالہ تاریخ کی سالگرہ منائی گئی۔سلور سپرنگ کی تاریخ پربلئیر،لی،جالودہ اور بری خاندانوں کے بڑے اثرات ہیں سیاسی تاریخ میں فرینکس پرسٹون بلیئر کی بڑی اہمیت ہے جس نے انیسویں صدی میں جدید امریکن ریپبلیکن پارٹی کی تنظیم میں بڑی مدد کی اور اس کے نواسے فرینکس پرسٹون  بلیئر لی کو امریکہ کی تاریخ کا پہلا مقبول تریں منتخب سینیٹر ہونے کا اعزاز حاصل ہے۔ دس بارہ سال پہلے یعنی سن2003 تک سلور سپرنگ ایک بہت چھوٹا سا شہر تھا پھر اسی سال جب ڈسکوری چینل نے اپنے ہیڈ کوارٹرز کی تعمیر مکمل کی اوربیتھسڈا سے اسے یہاں منتقل کیا،

تواس کے چار ہزار ملازمین کو بسانے کے لئے رہائش گاہوں کی ضرورت بھی محسوس ہوئی یوں یہ شہر پھیلتا چلا گیا۔
عدیل کے ساتویں منزل پر واقع فلیٹ کی دیوار گیرکھڑکی سے باہر کا منظربہت حسین لگ رہا تھا۔ سامنے ہی ڈاؤن ٹاؤن آ وٹ ڈور شاپنگ پازہ نظر آ رہا تھا۔عدیل میرے ساتھ کھڑا ہاتھ کے اشارے سے بتا رہا تھاکہ پاپا وہ سامنے سڑک کے اس پار جوسفید سی بلڈنگ نظر آ رہی ہے  وہ دنیا کے مشہور ومعروف چینل ڈسکوری کا ہیڈ کوارٹر ہے،اس کے دائیں جانب والی بلڈنگ میں میرا دفتر ہے۔میرے اس فلیٹ سے چند منٹ کی دوری پر۔
ابھی میں اس خوبصورت منظرنامے میں گم تھا کہ کچن سے رابعہ گرم گرم چائے کی ٹرے اٹھائے لاؤنج میں آ گئی۔ماں کو چائے لاتے دیکھ کر میری ننھی سی گڑیا زورسے بولی۔
،، ابو ٹی ٹائم،،
میں نے بیرونی کھڑکی سے توجہ ہٹائی،تھوڑا سا جھک کر ننھی گڑیا عنایہ کو گود میں اٹھا کر ڈائنگ ٹیبل کی طرف ہو لیا۔
رات کا کھانا آٹھ بجے کھا لیا گیا۔رابعہ اور عدیل بہے ساری باتیں کرنا چاہ رہے تھے۔لیکن میری لاڈلی چاہ رہی تھی کہ ہم بس اس سے باتیں کئے جائیں۔دس بجنے کا پتہ ہی نہیں چلا۔دس بجتے ہی رابعہ،عنایہ کو سلانے لے گئی۔عدیل بتانے لگا کہ ہم نے بڑی مشکل سے اسے ٹھیک دس بجے سونے کا عادی بنایا ہے۔تھوڑی دیر بعد رابعہ پھر لاؤنج میں آ گئی۔جس کمرے میں ہمیں لیٹنا تھا وہیں عنایہ کا بیڈ بھی لگا ہوا تھا،کمرے سے عنایہ کے باتیں کرنے کی آوازیں آ رہی تھیں،میں نے کہا اکیلی ڈر رہی ہو گی،میں نے اسے جواب دینا چاہا لیکن عدیل نے کہا ابھی تھوڑی دیر میں سو جائے گی اور وہی ہوا عنایہ کی آواز آنا بند ہو گئی۔
ہم دیر تک باتیں کرتے رہے۔
پھر
رابعہ نے کہا
،،آپ بہت تھک گئے ہوں گے،جیٹ لاگ بھی ہوتا ہے۔کوشش کریں سونے کی،،
،،ارے نہیں بیٹا تم لوگوں سے مل کر بالکل تازہ دم ہیں ہم دونوں،،
میں نے جواب دیا
،،اور ہاں کمرے میں  عنایہ کا بیڈ آپ کے ساتھ ہے،آب آپ ہی سنبھالئے اپنی لاڈلی کو،،
رابعہ نے کمرے سے جاتے ہوئے کہا
،،تم بے فکر ہو کر جاؤ،،
میں نے بستر میں گھستے ہوئے کہا
پتہ ہی نہیں لگا کب میری آنکھ لگی
اور 
پھر
اس طرح سویا کہ نا تو عنایہ کے صبح سویرے رونے اور اٹھ کر اپنی ماں کے پاس جانے کا پتہ چلا اور نا ہی کھڑکی سے آتی تیز روشنی نے مجھے ڈسٹرب کیا۔
میری جب آنکھ کھلی تو دن کے ساڑھے گیارہ بج رہے تھے۔
اور 
عدیل اور رابعہ ناشتے کی میز پر میرے منتظر تھے،کیونکہ آج اتوار تھا اور عدیل کی چھٹی تھی۔

Post a Comment