غم ہنسی میں چھپا دیا ہوگا
چشمِ نم نے بتا دیا ہو گا
بھول جانے کی اس کو عادت تھی
اس نے مجھ کو بھلا دیا ہوگا
ایک خط تھا ثبوت چاہت کا
وہ بھی اس نے جلا دیا ہو گا
رات چپکے سے لے اڑی تھی ہوا
راز دل کا بتا دیا ہو گا
ہجر کے مارے دل کو بھی اُس نے
جا نے کیسے سُلا دیا ہو گا
پھر بلایا ہے آج ناصح نے
گل کسی نے کِھلا دیا ہو گا
ہے یقیں مجھ کو ذکر پر میرے
و ہ فقط مسکرا دیا ہو گا
میں کہاں اور کیسی ہوں اُس کو
اسی غم نے گُھلا دیا ہوگا

Post a Comment