آخر شب میں پھر ہوا کیا ہے
کوئ تارہ فلک سے ٹوٹا ہے
شہر گلیاں مکان سب خاموش
جیسے آسیب کوئ اُترا ہے
 تیرا چہرہ ہے یا ہے آئینہ
جب بھی دیکھا ہے دن نکلتا ہے
ایک گھر مُنتظر ہے جو شاید
رات دن اک دیا سا جلتا ہے
آخری پہر ہو گیا شب کا
کوئ آتا ہے ایک سائہ ہے
کوئ تعویز اس بلا کے لئے
روگ یہ عشق کا لگا کیا ہے
چھپ گیا آسمان بادل میں
چاند پھر بھی کہیں نکلتا ہے
پاس جو بھی تھا کر دیا قربان
دیکھنے کو بھلا بچا کیا ہے
ایک آواز سُن سکو گر تم
کس طرح میرا دل دھڑکتا ہے


Post a Comment