وائلن بجاتی،سر بکھیرتی۔۔وہ لڑکی


میری لینڈ کے اوشن سٹی کا ساحلِ سمندر گوروں کے لئے ایک نعمت سے کم نہیں ہے۔شہروں کی رونقیں دیکھتے دیکھتے اچانک اوشن سٹی  کے تفریحی مقام پر چند روز گذارنے کا پروگرام بنا،اچانک تو یہ ہمارے لئے تھا لیکن عدیل اور رابعہ نے ہمارے پاکستان سے آنے سے پہلے ہی ہمیں گھمانے کا پورا پروگرام مرتب کررکھا تھا،یہی نہیں،عدیل نے اپنی سالانہ چھٹیوں میں سے دو ہفتے اسی سلسلے کے لئے بچا رکھے تھے۔
اوشن سٹی،میری لینڈ ریاست کا ایک جزیرہ ہے اور امریکہ میں اسے مڈ اٹلانٹک ریجن اور تعطیلات کے لئے اہم مقام گردانا جاتا ہے جہاں ہر سال 80لاکھ افرادتفریح کے لئے آتے ہیں۔ جسے ایک طویل پل نے باقی علاقوں سے جوڑا ہوا ہے۔اوشن سٹی جس جگہ آباد ہے اسے ایک لو کل امریکی سے ایک انگریز تھامس فنوک نے حاصل کیا۔سن1869میں ایک بزنس مین  اساک کوفن نے ساحلِ سمندر پر پہلے فرنٹ بیچ کاٹیج تعمیر کئے۔سن 1952میں چیسا پیک بے برج کی تعمیر نے اس علاقے کی رونق میں اضافہ کر دیایہ وہی طویل پل ہے جس کا میں نے ذکر کیا۔یہاں سیاہ فام تو یہاں کم ہی آتے ہیں لیکن گوروں کی یہ ایک جنت ہے۔گورے یہاں یا تو ساحلِ سمندرپر اوندھے پڑے سن باتھ لے رہے ہوتے ہیں یا پھر ساحل کے ساتھ ساتھ بورڈ واک کر رہے ہوتے ہیں۔

ساحلِ سمندر کے رتیلے حصے کے ساتھ ساتھ لکڑی کا میلوں لمبا پلیٹ فارم بنا ہوا ہے جسے بورڈ واک کہتے ہیں جسے1902میں تعمیر کیا گیا جس کے آگے دکانوں کی ایک لمبی قطار ہے،اس سے پیچھے ہوٹل ہیں۔دکانوں ہیں کھانے پینے کی،کھیلوں کی جن میں کیچرز لگے ہوئے ہیں ان میں بہت قیمتی چیزیں پڑی ہیں،کیمروں،آئی پوڈز سے لیکر بہت اعلیٰ قسم کے سٹف ٹوائے تک،آپ ایک یا دو ڈالر ان مشینوں میں ڈال کر قسمت آزما سکتے ہیں۔یہ دکانیں کیسینو سے مختلف ہیں۔بورڈ واک کے آخری حصے میں طویل القامت فیزی ویل نصب ہے جس میں ہندولے لگے ہوئے تھے،بچوں نے ہمیں بھی اپنے ساتھ ہنڈولے میں بٹھا لیا۔جب ویل میں ڈولتا ہوا ہنڈولاہمیں لے کر بلندی پر پہنچا تو چاروں طرف عجیب منظر تھا،دور دور تک ٹھاٹھیں مارتا ہوا سمندر،ایک جانب ایک پل جس پر گاڑیا ں اس جزیرے سے اور پر مسافروں کو لاتی لے جاتی کھلونا گاڑیوں کی مانند نظر آ رہی تھیں۔

مجھے بلندی سے خوف آتا ہے لیکن اب جب بچوں نے ساتھ بیٹھا ہی لیا تھا تو مین ان پر اپنا خوف ظاہر نہیں کر سکتا تھا۔چہرے پر مسکراہٹ اور ریڑھ کی ہڈی میں سرائیت کرتی خوف کی سر سراہٹ کے ساتھ میں جبر کر کے بیٹھا ہوا تھا۔چار پانچ چکروں کے بعد ویل رک گیا تو میری ریڑھ کی ہڈی میں سرسراتی خوف کی لہر بھی تھم گئی۔خوف کا ایسا ہی احساس مجھے اس وقت محسوس ہوا تھا جب پاکستان میں واپڈا ایک ہی تھااور مجھے واپڈا کی سالانہ رپورٹ کے لئے تصاویر درکار تھیں اور مجھے پاور سٹیشنوں کی تصاویر بنوانے فوٹوگرافرز کے ساتھ کوٹ ادو اور مظفرگڑھ میں فوٹوگرافی کرانی تھی،پاور ہاوس کی سو فٹ اونچی چمنی کی فلمبندی کے لئے  ایک کرین مہیا کی گئی  جس کے ساتھ پنڈولیم کی طرح ایک پلیٹ فارم جھول رہا تھا ایسا پلیٹ فارم جس کی کوئی دیوار نہ تھی،اللہ بخشے مسعود ذوالفقار کو وہ پلیٹ فارم پر چڑھا کرین آپریٹر نے پلیٹ فارم کو اوپر اٹھانا شروع کیا،ابھی پلیٹ فارم پندر،ہ بیس فٹ ہی اوپر گیا تھا کہ مسعود زوالفقار نے اوپر سے کچھ کہا،میں نے ہاتھ کے اشارے سے کہا کہ مجھے کچھ سمجھ نہیں آیا،اس نے بھی ہاتھ کے اشارے سے کہا کہ کرین کو نیچے کروائیں،میں سمجھا اسے ڈر لگ رہا ہے،کرین نیچے آئی تو مسعود ذوالفقار نے مجھے کہا،، سر آپ بھی ساتھ آئیں،میں اکیلا بنا تو لوں  لیکن  رضی صاحب کی ڈانٹ سے آپ ہی بچا سکتے ہیں کہ تصاویر آپ کی دی گئی ہدایت پر بنائی گئی ہیں،میں نے لاکھ کہا کہ میں کہہ دوں گا تم بنا و،لیکن وہ نا مانا،مجبوراََ مجھے اس کے ساتھ پلیٹ فارم پر کھڑا ہونا پڑا،ذرا غور کیجئے چارفٹ ضرب چار فٹ سائز کاڈولتا ہوا بغیر حفاظتی دیواروں کا پلیٹ فارم،میں،مسعود ذوالفقار اور علی کمال اس پلیٹ فارم پر سوفٹ کی بلندی پر ڈول رہے تھے اس وقت مسعود ذوالفقار اور علی کمال فوٹو گرافی میں مصروف تھے،ایسے میں خوف کی ایک لہر میرے تن بدن میں دوڑ گئی،اس سے پہلے کے میں چکرا کر گر جاتا میں کرین کی زنجیر پکڑ کر پلیٹ فارم پر بیٹھ گیا،ویل کے ہنڈولے میں خوف کی یہ کیفیت تو نا تھی لیکن اس سے اتر کر میں نے بچوں سے کہا کہ ایسے کسی اورکھیل میں مجھے حصہ نہیں لینا،بس تم ہی بیٹھنا۔
امریکہ کا کوئی بھی علاقہ ہو،اس کے ہر شہر میں کسی نا کسی سڑک پر،موسیقی کا مظاہرہ کرتے گروپس یا تنہا ڈرم،گٹار،وائلن،ٹرمپٹ بجاتا کوئی نا کوئی فرد نظر آ ہی جاتا ہے۔سچی بات تو یہ ہے کہ گروپوں جسے بچے بینڈ کہتے ہیں کی چیختی چنگھاڑتی انگلش موسیقی  مجھے کبھی پسند نہیں رہی۔بچہ لوگ پاکستان میں بھی اپنی دیسی موسیقی کے ساتھ اسے بھی سنتے ہیں لیکن میرے من کو یہ کبھی نہیں بھائی،ویسے بھی انگریزی کے حوالے سے میرا ہاتھ ہمیشہ ہولا رہا ہے،موسیقی کی چونکہ کوئی زبان نہیں ہوتی، نا اردو اور نا انگریزی اس لئے دھیمے سر بکھیرتی موسیقی روح میں اترتی محسوس ہوتی ہے۔یہ موسیقی اگر کھلی فضا میں ہو تو سننے کا یہ تجربہ روح کی بالیدگی کا باعث ہوتی ہے۔جس طرح  صحرا میں دور سے ابھرتی،ڈوبتی کسی چرواہے کی صدا۔
اوشن سٹی کے اس بورڈ واک پر سیر کرتے کرتے وائلن کی دھیمی سی،مدھر سی،ابھرتی ہوئی آواز مجھے اپنی جانب کھینچ رہی تھی۔ساحلِ سمندر کے کنارے کھلی فضا میں وائلن کی اس آواز میں سمندر کی لہروں کا شور بھی شامل تھا، بورڈ واک کرتے آپس میں باتیں کرتے افراد کی باتوں کا شور بھی تھا،اس معاشرے میں اظہارِ محبت میں سرِ عام بوسہ لینے کی دھیمی سی آواز بھی اس کھلی فضا میں سنی جانے والی وائلن کی آواز میں ہم آھنگ ہو کر زندگی سے قریب تر محسوس ہو رہی تھی۔
ہم دھیرے دھیرے قدموں سے چل رہے تھے اور آہتہ آہستہ وائلن کی آواز بلند ہو کردوسری آوازوں کو دبا رہی تھی پھر یوں ہوا کہ ایک موڑ پر وائلن نواز سامنے آ گیا،یہ وائلن بجاتی ایک لڑکی تھی،اپنی دھن میں مگن وائلن کے تاروں سے دل کو موہ لینے والی موسیقی تخلیق کر رہی تھی،آنکھیں بند کئے،سر کو جھکائے اپنے فن کا مظاہرہ کرنے میں اتنی مگن تھی کہ شاید اسے اندازہ ہی نہ تھا کہ ایک خلقت نصف  دائرے کی شکل میں اس کے فن سے نا صرف محظوظ ہو رہی تھی بلکہ اس پر سکوں اور ڈالروں کی بارش کر رہی تھی۔ مجھے گذشتہ اتوار کو سلور سپرنگ کے ڈاؤن ٹاؤن  میں  کیمونٹی سنٹر  کے پختہ ایونٹ گراونڈ میں سٹیج پر وائلن بجاتا فن کار یاد آگیا،عمارتوں میں گھرا یہ یختہ ایونٹ گراؤنڈاور اس پر وائلن بجاتا تنہا فن کاروہ تاثر پیدا کرنے میں کامیاب نہیں ہو پا رہا تھا جو یہ کھلی فضا میں وائلن بجاتیتنہا لڑکی کر رہی تھی۔
امریکہ کے ہر شہر میں کھیل تماشے ہوتے رہتے ہیں۔
کچھ آگے ایک اور لڑکی اپنے لچکیلے،تھرکتے بدن کے گرد روشنی سے جگمگ کرتا رِنگ گھمانے کا مظاہرہ کر رہی تھی۔وائلن بجاتی تنہا لڑکی تو اردگرد سے بے پرواہ تھی اور لوگ اس کے فن پر سکوں اور ڈالروں کی بارش کر رہے تھے لیکن رِنگ گھماتی لڑکی کے تھرکتے بدن کے لشکاروں کے باوجود اس کے سامنے پڑے ہیٹ میں ابھی چند ہی سکینظر آ رہے تھے شاید اس کی وجہ یہ رہی ہو گی کہ لچکنا،تھرکنا ان کے معمولات اور ماحول کا حصہ ہے اور وہ اپنے روزمرہ کے محاورے میں اس کھیل تماشے کو کوئی اہمیت نہیں دے رہے تھے۔،یہ چند سکے بھی اس کے بدن کے گردگھومتے روشنی کے جگمگاتے رِنگ کی بدولت تھے،اس کے فن کایہی مظاہرہ اگرہمارے ملک میں ہو رہا ہوتا تو اس پر نوٹوں کی بوچھار ہو ہو جاتی۔اس لڑکی کے منہ پر مسکراہٹ سجی تھی لیکن اس کے چہرے پر آتے جاتے رنگ بتا رہے تھے کہ وہ خاصی مایوس ہے۔ہم تھوڑی دیر وہاں رکے،اس کی نظر چند لمحوں کے لئے ہم پر رکی اور پھر وہ دوسری جانب دیکھتے ہوئے تھرکنے لگی۔عدیل نے ایک سکہ عنایہ کو دیا کہ جاؤ اس ہیٹ میں ڈال آؤ،عنایہ کچھ جھجکی،پھر آگے بڑھی،ہیٹ میں سکہ ڈالا،واپس مڑی،بھاگتی ہوئی واپس آئی اور اپنے بابا کی طرف داد طلب نظروں سے دیکھنے لگی۔بچے کتنے معصوم ہوتے ہیں۔
رات کی تاریکی گہری ہوتی جا رہی تھی لیکن روشنی سے منور بورڈ واک پر بھیڑ بڑھنے لگی تھی،سمندر کی سفید ریت پر دوپہر کو جسموں پر سن بلاک لوشن کا بھرپور سپرے کئے اوندھے پڑے سن باتھ لیتے گورے بھی اپنے ہوٹلوں میں شاور لے کر اب بورڈ واک پر آ گئے تھے،یہاں کھانے کی بہت سی دکانیں تھیں لیکن یہاں ہمارے لئے کھانے کے لئے کچھ نہیں تھا کیونکہ یہاں کچھ بھی حلال نا تھا۔ہاں آلو کے فرائز تھے یا پاپ کورنز۔ ہم نے پہلے فرائز لئے جو عنایہ بھی کھا سکتی تھی پھر پاپ کورنز لئے اور چلتے چلتے کھانے لگے۔
کیچ اینڈ ون والی بہت سی دکانیں تھیں،وہاں کیچرز میں بیش قیمت چیزوں کو دیکھ کر میں کئی بار ان کے نزدیک گیا لیکن پھر واپس بچوں کے پاس آ گیا۔وہاں کھڑے ہو کر مجھے لاہور میں گلبرگ کا سٹی2000یاد آ گیا جہاں عدیل جب چھوٹا سا تھا تو اس کی ضد پر اکثر وہاں جانا ہوتا تھا،عدیل جی بھر کر رائیڈز کے مزے لیتا اور میں وہاں نصب کیچرز سے کھیلتا تھا اور ہر بار کوئی نا کوئی کھلونا نکال کر عدیل کی خوشی دوبالا کر دیتا تھا، اب جب میں چوتھی بار اس دکان پر جا کر کھڑا ہوا تو عدیل بھی میرے پاس آگیا اور کہنے لگا،،بچپن میں تو آپ بڑے ایکسپرٹ تھے کھلونے نکالنے میں،یہاں بھی کوشش کر کے دیکھ لیں عنایہ خوش ہو جائے گی۔
میں نے پچیس(25) سال بعد کوشش کی لیکن کھلونا کیچر سے اس وقت گر گیا جب اس کے ڈراپ بکس میں گرنے کی منزل دوگام رہ گئی تھی۔

Post a Comment