منٹگمری کاونٹی۔ وڈ سائیڈ پارک


شام کو عنایہ پارک جانے کی ضد کرتی تو ہم سب پیدل ہی اسے سٹولر میں ڈال کر قریب کے پارک میں لے جاتے،یہ کوئی زیادہ بڑا پارک نہیں ہے لیکن اس تک جانے میں  میرے سیر کے کیڑے کو خوراک مل جاتی تھی۔ مجھے ابھی تک اس پارک کا نام معلوم نہیں تھا کیونکہ کئی بار پارک جانے کے باوجود کبھی پارک کے بورڈ پر نظر ڈالنے کی کوشش نہیں کی تھی۔
اس روز بھی عنایہ پارک جانے کے لئے بضد ہوئی تو ہم عنایہ کو لے کر پارک لے آئے۔ننھی عنایہ ایک جھولے سے دوسرے جھولے تک بھاگنے لگی،ماں باپ اور دادی بھی اس کے ساتھ ساتھ پھر رہے تھے،پارک میں ہر رنگ و نسل کے بچے اور ان کے پیچھے بھاگتی مائیں،میں اکیلا ہی ایک قدیم سے لکڑی  کے بینچ پر بیٹھ گیا۔میں نے نظر اٹھا کردیکھا تو آج پہلی باراس پارک کے نام کے بورڈ پر پڑی جو وہاں سڑک کے کنارے استادہ تھا،وڈ سائیڈ پارک،پارک کے نام سے ہوتی ہوئی میری نظر منٹگمری کاونٹی پر ٹک کر رہ گئیں۔
منٹگمری کاونٹی کی تاریخ منٹگمری(ساھیوال) سے اس طور مماثلت رکھتی ہےکہ منٹگمری کاونٹی کورچرڈ منٹگمری  نے جب کے منٹگمری(ساھیوال ) کو پنجاب کےلیفٹینٹ گورنر سر رابرٹ منٹگمری نے بسایا۔یہ بات اگرچہ متنازعہ ہے کہ امریکہ کس نے دریافت کیا لیکن مروجہ تاریخ کو ہی مان لیا جائے کہ کرسٹوفر کولمبس نے1493میں امریکہ دریافت کر لیا تھا۔ منٹگمری کاونٹی کی تاریخ 1776میں شروع ہوتی ہے  جبکہ  منٹگمری(ساھیوال) 1865میں لیفٹینٹ گورنر سر رابرٹ منٹگمری کی وفات کے بعد منٹگمری کہلایا لیکن یہ ہڑپہ 
کی  قدیم تہذیب کا نو ہزار سال قبل مسیح کا تسلسل لئے ہوئے ہے۔
بچوں کے لئے توشاید اس لفظ،،منٹگمری،، میں کوئی خاص کشش نا تھی لیکن میں لمحوں میں اپنے ماضی میں پہنچ گیا۔منٹگمری(ساھیوال) میری جنم بھومی جس سے میری یادیں جڑی ہیں،ماہی شاہ کے قبرستان میں میرے ماں باپ محوِ خواب   ہیں۔جہاں میں نے اپنے بابا جی سرکار،اپنے والد سے پہلا لفظ بولنا سیکھنے سے  لے کرقلم کی حرمت تک کا درس 
لیا،دوستوں کی صحبت میں کیفے ڈی روز  کے شب و روز۔بزمِ فکر وادب میں بیتا ایک ایک لمحہ،اسٹیڈیم ہوٹل پر مجید امجد کی صحبت میں گذرا ہوا وقت،شہر کے بیچوں بیچ بہتی نہر جو ہمیں دریائے ٹیمز لگتی تھی کے کنارے ٹہلنا،اسی نہر کے کنارے لگے ہرے بھرے چتناروں پر چلتے تیشوں پرمجید امجد کے قلم سے نکلی ایک کرب ناک چیخ جس نے ان کی حساسیت کو دنیا پر آشکار کر دیا۔
بیس برس سے کھڑے تھے جو اس گاتی نہر کے دوار
جھومتے کھیتوں کی سرحد پر،بانکے پہرے دار
کھنے،سہانے۔چھاؤں چھڑکتے،بور لدے چھتنار
بیس ہزار میں بک گئے سارے ہرے بھرے اشجار
جن کی سانس کا ہر جھونکا تھا ایک عجیب طلسم
گری د ھڑام سے گھائل پیڑوں کی نیلی دیوار
کٹتے ہیکل۔جھڑتے پنجر،چھٹتے برگ و بار
سہمی دھوپ کے رد و کفن میں لاشوں کے انبار
آج کھڑا میں سوچتا ہوں اس گاتی نہر کے دوار
اس مقتل میں صرف اک میری سوچ لہکتی ڈال
مجھ پہ بھی اب کاری ضرب اک اے آدم کی آل
یہ درخت جن کے کٹنے پرمجید امجد کے اندر ایک حساس انسان چیخ اٹھا تھا،یہاں امریکہ میں کسی شاعر کو چیخنے کا موقع نہیں ملتا کیونکہ یہ نیچر سے پیار کرنے والی قوم ہے،یہاں ہر طرف ہریالی بکھری ہے،درختوں کی بہتات ہے،لیکن یہاں کوئی ٹمبر مافیا نہیں ہے۔ہر طرف گھنے جنگل نما پارک بھی ہیں جہاں قدرتی طور پر عمر رسیدہ ہو کر گر جائے تو یہاں کی انتظامیہ سے گرا رہنے دیتے ہیں ما سوائے اس درخت کے جو سٹرک پر گر کر سڑک کو بلاک کو بلاک کر دے کیونکہ ان کا ماننا ہے کے یہ ایک نیچرل عمل ہے۔
منٹگمری(ساھیوال) کی نہر کے کنارے واقع کنعان پارک میں داخل ہوتے ہی ہمارے کانوں میں مجید امجد کی نظم توسیعِ شہرکی گونج  لاشعوری طور پر سنائی دیتی ہے۔کیفے ڈی روز پر منعقد ہونے والی مجلسِ فکر نو کی محفلیں،راؤ شفیق،نعیم نقوی،ارشد رضوی،رانا زاہد،کامران،وارث انصاری،ارشد چوہدری،اور بہت سے دوست،سنیئرز میں حاجی بشیراحمد بشیر،گوہر ہوشیار پوری،جعفر شیرازی،                                یسینٰ قدرت،اکرم کلیم،غلام فرید کاٹھیہ اور جانے کتنے لوگ تھے جو وہاں رونق افروز ہوتے تھے۔منٹگمری(ساھیوال) میری یادوں، میری انسپریشن کا مرکز و محور ہے۔یادوں کا ایک سلسلہ تھا جو بہتا چلا آ رہا تھا۔
اچانک بھاگتی ہوئی ننھی عنایہ زور سے مجھ سے ٹکرائی۔اور،،ابو،، کی آواز مجھے پھر پارک کے اس بینچ پر لے آئی جہاں میں بیٹھا تھا،میں نے عنایہ کی جانب دیکھا تو چڑھی ہوئی سانس کے ساتھ اس کے چہرے پر مسرت کے دھنک رنگ جھلملا رہے تھے۔ بچوں کی یہ عادت مجھے بہت پسند ہے کہ سیر حاصل کھیل کود کے باوجود ان کا دل نہیں بھرتا،عنایہ بھی اپنے باپ پر گئی ہے۔میں اور میری بیگم دونوں اپنے اپنے کام سے واپس آتے تو سارا دن کی تھکن چاہتی تھی کہ تھوڑا ریسٹ  کیا جائے لیکن عدیل کہیں نا کہیں جانے کے لئے تیار بیٹھا ہوتا تھا حالانکہ وہ بھی سکول سے آیا ہوتا تھا لیکن بچوں میں انرجی بھری ہوتی ہے،ہمارے آتے ہی جوائے لینڈ یاکسی اور جگہ جانے کا تقاضا شروع ہو جاتا اور ہم اسے لے کر نکل جاتے،جوائے لینڈ کی ساری رائیڈز پر دو،دو بار بیٹھنے کے باوجود اس کا دل نہیں بھرتا تھا،عنایہ بھی عدیل کی طرح دبلی پتلی سی ہے لیکن انرجی ہے کہ کوٹ کوٹ کر بھری ہے۔
پارک سے واپسی کے لئے عدیل نے بڑی مشکل سے اسے سٹولر میں بٹھایا اور ہم واپسی کے لئے روانہ ہوئے۔راستے میں چلتے چلتے میں نے عدیل سے پوچھا،،یہ منٹگمری کاونٹی ہے؟،،
،،جی پاپا،میری لینڈ میں تین کاونٹیاں ہیں۔منٹگمری واحد کاونٹی ہے جہاں انگریزوں کی تعداد سب سے زیادہ  ہے ورنہ دوسری کاونٹیوں میں میکسیکنز نیگرو بھرے ہوئے ہیں۔بنیادی طور پر کاونٹی کو اگر پاکستان کے نظام میں دیکھا جائے تو یہ ڈویژن کی حیثیت رکھتا ہے۔

Post a Comment