نہ مَیں انکار نہ اثبات میں رکھا گیا ہوں
ذرا تشکیک کے شبہات میں رکھا گیا ہوں
طبعِ نازک پہ گراں بار نہ یکسانی ہو
کبھی دن میں تو کبھی رات میں رکھا گیا ہوں
دولتِ ہجر ہی آئی ہے مرے حصے میں
نہ ہی خوباں سے ملاقات میں رکھا گیا ہوں
نہ مسافر یہ ترے شہر میں ٹھہرایا گیا
نہ کہیں سیرِ مضافات میں رکھا گیا ہوں
جیسا تشکیل ہوا ہے یہ خرابہ میرا
ویسی دنیائے خرابات میں رکھا گیا ہوں
بحث مجھ خلق کے اسباب و علل کی بیکار
خاک تھا خاک کی اوقات میں رکھا گیا ہوں
میرے افعال کی پہلے سے خبر تھی اُس کو
سو یہاں دوزخِ حالات میں رکھا گیا ہوں
بے اماں شہر کا شہری ہوں خلاصہ اتنا
روز و شب مشقِ فسادات میں رکھا گیا ہوں
حرفِ تکرار ہوں ہر مجلسِ میثاق میں اور
وقتِ گفتار شروعات میں رکھا گیا ہوں
جھوٹ ہوں سلطنتِ نطق پہ قبضہ ہے مرا
اور انسان کی عادات میں رکھا گیا ہوں

Post a Comment