افتخار شفیع
تم نہیں ہو تو گماں ہے کہ نہیں تھے ہم بھی
ورنہ من جملہء ارباب یقیں تھے ہم بھی
قصہ گو ! تو نے فراموش کیا ہے ورنہ
اس کہانی میں تر ے ساتھ کہیں تھے ہم بھی
اب جو لوٹے ہیں پو حیران کھڑے سوچتے ہیں
یہ مکاں وہ تو نہیں جس کے مکیں تھے ہم بھی
یہ الگ بات کہ تجھ حسن کو منظور نہ تھا
ورنہ خوش فہم تو خود اپنے تیئں تھے ہم بھی
دل پہ لکھی تھی جو تحریر مٹاتے کیسے 
لاکھ کم فہم سہی آ ئینہ بیں تھے ہم بھی

محمد افتحار شفیع

Post a Comment