انور زاہدی
اب یاد نہیں کس کو کہاں بھول گئے ہیں
دینی تھی دعا جس کو جہاں بھول گئے ہیں
اک شکل تھی پھولوں کی طرح یاد نہیں ہے
کیا پھول تھے کیا شکل سماں بھول گئے ہیں
اُڑتے ہیں پرندے جو فضا میں وہ کسی کے
کیا نام ہے اُن کا وہ زماں بھول گئے ہیں
انجان نگاہوں سے یوں تکتا ہے مجھے شھر
ہیں کون سی گلیاں وہ مکاں بھول گئے ہیں
موسم بھی یہاں پہلے کی مانند نہیں ہیں
یہ کون سی رُت ہے وہ یہاں بھول گئے ہیں
دُہراو گے تو یاد کہاں آئے گا انور
ہم یاد ہی کرنے کا نشاں بھول گئے ہیں

Post a Comment