انور زاہدی
اس سکوت وقت میں بس اک نظارہ چاہئے
ہاں یا ںاں کی اک صدا کا ہی اشارہ چاہئے
ایک مدت سے رہا طالب کسی اقرار کا 
بہتے دریا کو آخر اک کنارہ چاہئے
شام فرقت میں اُداسی رات سے دوچند ہے
رات گزرے گی بھلا کیسے سہارا چاہئے
ایک سناٹا ہے پھیلا صبح کاذب میں یہاں
اب سکوت شب میں شاید اک شرارہ چاہئے
شام غم کو سبز ہی رہنا ہے اب تیرے بنا
ایک رُت بارش کی اشکوں کا اشارہ چاہئے
رُوپ انر کس قدر تیرے رہے اے زندگی
آخری بہروپ کا بھی اک نظارہ چاہئے

Post a Comment