کتاب : کتابیں بولتی ہیں(تنقیدی کالم/مضامین)
مصنف : رضاالحق صدیقی
مصنف سے دستخط شدہ کتاب حاصل کرنے کے لئے مصنف کو ان بکس کریں
https://www.facebook.com/siddiqiraza
قیمت : 600 روپے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ایک کہاوت ہے؛”بہو نویلی گؤ دودھیلی“،اور اس سے مراد یہ لی جاتی ہے کہ نئی
دلہن کی خدمت یوں کی جاتی ہے جیسے دودھ دینے والی گائے کی۔ تو یوں ہے صاحب کہ ہمارے ہاں ای ٹیکنالوجی آئی تو اس کی آؤ بھگت اور ٹہل سیوا بھی نئی نویلی دلہن کی طرح ہوئی۔پھر یہ ٹیکنالوجی بھی تو کچھ اداروں کے لیے دودھیل گائے نکلی کہ انہوں نے اپنا سارا لین دین اسی میں منتقل کیا اوراس میں بہت زیادہ افرادی مداخلت کے مواقع ختم کرکے نہ صرف اپنے کنٹرول کو مستحکم کیا، اخراجات کو بھی کم کر لیا تھا۔ سو یہ ان کے لیے تو ایسی گائے تھی جوخوب دودھ دیتی تھی،مسلسل دے رہی تھی اور خشک بھی نہ ہوتی تھی۔ اور ہاں یہیں کہتا چلوں کہ گائے چاہے جتنی اعلی نسل کی ہو،ہمیں بچھڑے اور دودھ سے نوازتی رہے،وہ جتنی بھی خوش نظر، چست اور ہوشیار ہو،ان امکانات کے ساتھ موجود ہوتی ہے کہ اسے اڈیما،منہ کھر، واہ، موک، چیچک، گل گھوٹو،اسقاط، بخار اور سو طرح کے دوسرے عارضے ہو سکتے ہیں۔ تو یوں ہے کہ ہماری انڈسٹری کو اس گائے کا دودھ دوہنے کے ساتھ ساتھ اس کے عارضوں سے بھی نپٹنا پڑ رہا ہے ۔
اچھا، جن کے لیے یہ دلہن تھی، وہ بھی اس کے ناز اُٹھائے نہ تھکتے تھے، جن کے پاس گھروں میں سہولت نہ تھی ان کے لیے انٹرنیٹ کیفے کھل گئے، پہلے پہل تو یوں لگا جیسے یہ دلہن نہ تھی کوٹھے والی تھی، کہہ لیجئے جنس کی گڑیا، کہ سب اس سے وہی حظ اور لذّت اُٹھانا چاہتے تھے جو بس کوٹھے والیاں ہی عطا کر سکتی ہیں۔ سو یہاں دیسی عربی اور ولایتی مجرے دیکھنے سے لے کر ننگی فلموں اور بے ہودہ تصویروں والی سائٹس پر ہمارے ہاں اتنی ٹریفک بڑھی کہ ہم اس باب میں سب سے اوپر والے ملکوں میں شمار ہونے لگے۔ 
یہ تو بہت بعد میں ہوا ہے کہ ہمارا مسلسل لذت والے شیرے کو چاٹنے میں کُھبا ہوا دِل ہلنے لگا ہے۔ جس تہذیبی ورثے کے ہم اپنے آپ کو دعوے دار کہتے آئے ہیں اور اس پر اِتراتے ہیں اس کا تقاضا تو یہ تھاکہ ہم اِس جانب جاتے ہی نہ، اور اگر سہو نظر والا معاملہ ہو جاتا تو پہلی بار ہی متلی آ جاتی۔ خیر متلی تو اُسے آتی ہے جس کا پہلے سے ایک مزاج بنا ہو، ورنہ تجسس آگے کی جانب پھسلتے چلے جانے پر اُکساتا ہے، یہاں تک کہ یہ تجربہ خود اِس پھسلن سے منہ پھیردے۔  بہ ہر حال، یوں لگتا ہے کہ کچھ عرصہ سے تبدیلی کی ہوا چل پڑی ہے۔ میری مراد اس تبدیلی سے نہیں ہے جس کا ڈھنڈورا ہمارے سیاستدان پیٹا کرتے ہیں اور وہ بعد ازاں منٹو کے افسانے”نیا قانون“ کی سی نکلتی ہے، بلکہ میرا اشارہ اِس تبدیلی کی جانب ہے کہ اب ہم اِس ٹیکنالوجی سے سماجی سطح پر رابطے کا کام بھی لینے لگے ہیں۔  تحریر اسکوائر والے انقلابی اقدام کی حد تک نہ سہی مگر اس حد تک ضرور کہ اب یہ ہمارے مزاجوں کا حصہ بننے لگی ہے۔  فیس بک ہو یا ٹیوٹر اور دوسرے بلاگ اور سماجی رابطے کی سائیٹس،اِن کامنفی استعمال بھی عام سہی، مگر وہاں ایسے گروپس، ادارے اور اشخاص ضرور نظر آنے لگے ہیں جو ادب کے مطالعہ کے چلن کو عام کر رہے ہیں۔ اس کا اثر یہ ہوا ہے کہ بانجھ سیاسی گفتگوؤں اور مذہبی فرقہ ورانہ جھگڑوں سے اوب کر اِس ٹیکنالوجی کے استعمال کنندگان بہت جلد مثبت سرگرمیوں کو عام کرنے والی ان سائیٹس کی طرف آ جاتے ہیں اور مزے کی بات یہ ہے کہ وہ یہاں ٹھہرے رہتے ہیں۔ 
میں دیکھ رہا ہوں کہ یہ سماجی رابطے کی سائیٹس اب محض اُچٹے ہوئے رابطوں اور اُتھلی گفتگو ؤں کا نشان نہیں رہے کہ یہاں سنجیدہ مکالمہ بھی فروغ پانے لگا ہے۔  رضاالحق صدیقی کا شمار اُن لوگوں میں ہوتا ہے جنہوں نے اِنٹرنیٹ پر سنجیدہ ادبی مکالمے کی فضا بنانے میں اپنا لائق اعتنا حصہ ڈالا ہے۔ اس باب میں انہوں نے تحریر اور تصویر دونوں سے کام لیا ہے۔”کتابیں بولتی ہیں“ میں جمع کردی گئی یہ تحریریں ان کی ایسی ہی سنجیدہ اور تعمیری کو ششوں کا ثبوت ہیں۔ صدیقی صاحب نے یوں کیا ہے اپنے ذوق اور ترجیحات کے مطابق شاعری یا نثر کی کوئی کتاب اُٹھائی، اُسے پڑھا، سمجھا اوراس مطالعہ میں اوروں کو شریک کرنے کے لیے ایک ویڈیو تیار کی جس میں وہ خود اُس کتاب کا تعارف کراتے نظر آتے ہیں۔ ایسی ویڈیوز کو انہوں نے انٹر نیٹ پر اپنی سائٹ پر اَپ لوڈ کر دیا اور اس کے لنکس سماجی رابطوں کی سائٹس پر بھی فراہم کر دیے۔ ان بولتے کالموں میں اس بات کا خاص خیال رکھا گیا ہے کہ بات طویل نہ ہو، اپنے موضوع سے جڑی رہے اور سامع کو بھی اپنی گرفت میں رکھے۔  میں سمجھتا ہوں کہ اس باب میں وہ بہت کامیاب رہے ہیں۔
اب ان ادبی کالموں کو کتابی صورت میں فراہم کر دیا گیا ہے۔ اس مجموعے میں شامل تحریروں سے دیکھا جاسکتا ہے کہ وہ خود ادب کے بہت سنجیدہ قاری ہیں اورنثر اور نظم دونوں ان کے مرغوب علاقے ہیں۔ کسی بھی کتاب کا جائزہ لیتے ہوئے انہوں نے کوشش کی ہے کہ صاحب کتاب کے دیگر کام کو بھی دیکھ لیا جائے۔  نثر کے حوالے سے اگر ان کی ترجیحات میں احمد ندیم قاسمی،محمد حامد سراج، زاہدہ حنا، فرحت پروین، نیلم احمد بشیر، سلمی اعوان، گل شیر بٹ، بلند اقبال، لیاقت علی، غلام فرید کاٹھیا،اسلم سحاب ہاشمی جیسے نئے پرانے تخلیق کار رہے ہیں تو شاعری میں مجید امجد،شہزاد احمد، خالد احمد،صبیحہ صبا،طاہر سعید ہارو ن، ظہورالاسلام جاوید،یعقوب تصور،صغیر احمد جعفری ،صباحت عاصم واسطی، زبیر فاروق، ثروت زہرا،سحر تاب رومانی،علامہ عطا اللہ جنوں، عباس تابش، عرفان صادق،حامد یزدانی، ناصر رضوی، زاہد عباس، افضال نوید،جعفر شیرازی اور بشیر احمد بشیر،لیاقت علی عاصم اور بہت سے دیگر کو دیکھا جا سکتا ہے۔ مجموعی طور پر ان کا نقطہ نظر مثبت رہا ہے۔ انہوں نے جہاں صاحب کتاب، کتاب اور اس کے مندرجات کاتعارف اپنے سامعین(اور اب قارئین) کے سامنے رکھا وہاں وہ تخلیقات پر بات کرتے ہوئے سیاسی اور سماجی حوالوں کو بھی نشان زد کرتے چلے گئے ہیں جس سے ا ن کالموں کی افادیت دوچند ہو جاتی ہے۔ مجھے یقین ہے  کہ ان کے اس تنقیدی کام کو قدر کی نگاہ سے دیکھا جائے گا۔ 

محمد حمید شاہد 
اسلام آباد        

Post a Comment