ثروت زہرہ
درد کے آوے میں چُولہا نہ جَلے ' تب کیا ہو ؟
زندگی رزم ِزمانہ میں گَلے ' اب کیا ہو ؟
میری پلکوں کے تلے چشمِ تماشا جاری
ھُو کی یلغار میں گم ہوگئی ' سو رب ! کیا ہو ؟
میرے انجام سے آغاز تلک تُو ہی تُو
موڑ کب' منزلیں کیوں ُاور کوئی ڈھب کیا ہو ؟
جلتی باتی میں جلے تاگ کی اب راکھ ہوں مَیں 
موم کے جسم کو انجام ملے' اب کیا ہو ؟
کالے سُرمے سے بندھی آنکھ کی زنجیریں ہیں
کیوں ادا اوڑھیے انداز ہو کیا ؟ چَھب کیا ہو ؟
نامیاتی کسی ترتیب سے نکلا ہُوا دن
سارے انداز سیاہی میں دُھلے ' شب کیا ہو ؟

Post a Comment