یہ مضمون سید عارف مصطفیٰ نے بھی کہیں شیئر کیا ہے۔سلیم آذر صاحب کا کہنا ہے کہ نفاذِ اردو کے لئے پوائنٹ ایک جیسے ہیں لیکن اس مضمون میں ضذبات ان کے ہیں۔بات اتنی سی ہے کہ اس گونگی قوم کو زبان ضرور ملنی چاہیئے
رضاالحق صدیقی،مدیراعلیٰ ادبستان اور تخلیقات
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

نفاذ اردو کا مقدمہ سپریم کورٹ میں ہے، حکومت نے نفاذ اردو کی تعمیل کا جواب دینے کےلیےعدالت عظمیٰ سے3 دن کی مہلت لے لی ہے۔ آئندہ سماعت بدھ 20 مئی کوہوگی۔ سوال یہ ہے کہ نفاذ اردو کے لیے ان تین دنوں میں حکومت ایسا کیا کارنامہ سرانجام دے سکتی ہے جو قیام پاکستان سے اب تک نہیں کیا جاسکا! لہٰذا لگتا ہے کہ حکومت کا یہ اقدام بھی معاملات کو طول اورٹالنے کی حکمت عملی کا ایک حصہ ہے، حکومت نے نفاذ اردو کے لیے مطلوبہ تکنیکی امور و ضروری تیاریاں تاحال نہیں کی ہیں جب کہ مقتدرہ قومی زبان و متعلقہ ادارے اپنا اپنا کام مکمل کرچکے ہیں۔ نفاذ اردو کے لیے لازم ہے کہ سپیریئر سول سروس یعنی مقابلے کے امتحانات کے پرچے اردو میں بھی حل کرنے کی فوری اجازت دی جائے جس کے حوالے سے جسٹس خواجہ نے کہا کہ موجودہ سسٹم میں جان بوجھ کر یہ طریقہ کار اختیار کیا گیا ہے کہ 95 فیصد لوگوں کو اردو میڈیم ہونے کی بنا پہ محکوم ہی رکھاجائے اور ہمیشہ انگریزی میڈیم طبقے کا راج رہے-جسٹس جواد خواجہ نے یہ بھی کہا کہ نفاذ اردو کا کام اتنا مشکل بھی نہیں اور عدالتی امور میں تو میں نے اسے متعدد بار آزمایا ہے اور اپنے کئی فیصلے بھی اردو ہی میں لکھے ہیں۔ 
خدشہ ہے کہ حکمراں طبقہ وزیراعظم کے طلب کردہ اجلاس کو غیرموثر بنانے کے لیے تمام حربے و ہتھکنڈے استعمال کرے گا، اجلاس میں اردو کے ایسے جعلی خادمین بھی شریک ہوں گے جو اردو کا کھاتے اور انگریزی کا گاتے ہیں لہٰذا ضروری ہے کہ ایسے جعلی ماہرین اردو کو اور اردو کی مخالف بیوروکریٹ کو روایتی کھیل کھیلنے کا موقع نہ دیا جائے 
چنانچہ ادیبوں، شاعروں، کالم نگاروں اور صحافی وکلا برادری سے ہماری اپیل ہے کہ وہ نفاذ اردو کے لیے حکومت پر اپنا دبائو بڑھائیں‌بلکہ 20 مئی کوآئندہ سماعت کے موقع پہ اپنے احباب کے ساتھ سپریم کورٹ پہنچیں اور حکومت پر‌واضح کردیں اب ہم حکمرانوں کو اردو 
کے ساتھ یہ بوسیدہ کھیل نہیں کھیلنے دیں‌گے اور یہ کہ نفاذ اردو کے لیے ہم پاگل ہیں، جعلی دیوانے نہیں نفاذ اردو کے لیے اصلی پاگل!
یہ کیس اب تاریخی مرحلے پہ ہے، میری اہل قلم ساتھیوں سے التجا ہے کہ وہ اس حوالے سے اپنی تخلیقات کو سامنے لائیں اور ایک زبردست ذہنی فضاکی تشکیل کرنے میں معاونت کریں۔ اردو ایک مکمل زبان ہے،بی بی سی اور یونیسکو کی رہورٹ کے مطابق سنی جانے والی دنیا کی تیسری بڑی زبان ہے جو دنیا کے ہر خطے می بولی اور پڑھی جاتی ہے ان میں اسرائیل ، جرمنی جنوبی افریقہ جیسے ممالک بھی شامل ہیں ۔ ایک دور تھا جب حیدر اباد کی عثمانیہ یونیورسٹی سے طب اور انجینئرنگ کی تعلیم بھی اردو میں دی جاتی تھی۔ یہ تو ہمارے حاکم طبقے کا بیڑا غرق ہو جس نے اردو کو راندہ درگاہ بنا دیا ورنہ تہذیب، شائستگی، لطافت، فصاحت وبلاغت کے اعتبار سے شریں زبانیں تین بیان کی جاتی ہیں، ایک عربی، دوسری فارسی اور تیسری اردو، اردو ان دو زبانوں سے اس لیے بہتر ہے کہ اس میں دیگر زبانوں کو اپنے اندر سمو کر اپنا بنا لینے کی زندہ صفت سب سے زیادہ موجود ہے، انگریزی اکھڑ لیکن علمی زبان ہے، اگریزی ہم پر ٹھونسی بلکہ جبراً مسلط کی جارہی ہے جو ہماری تخلیقی صلاحیتوں، اعتماد، عمل اور علمی ترقی کو دیمک کی طرح کھائے جارہی ہے۔ 
میں اپنی سطح پر نفاذ اردو کی مہم کا آغاز کرتا ہوں اور اگر ہم سب اپنی اپنی سطح پر میڈیا پراردو کے حق میں آواز بلند کریں تو امید ہے کہ ہم اپنی آئندہ نسل کے لیے حصول علم کی وہ آسانی چھوڑ جائیں جس سے ہم محروم رہے۔

1 تبصرے

  1. سلیم آذر Saleem Aazaar15 مئی، 2015 کو 4:06 PM

    انگریزی ذریعہ تعلیم اور دفتری زبان کے ہوتے ہوئے ہم لاکھ کوشش کرلیں کہ ملک میں ایک پاکستانی قوم بن سکے، ایک اسلامی و قومی سماج پروان چڑھ سکے، ہر گز ممکن نہیں کیوں کہ مسلمہ امر ہے کہ ہر وہ قوم ترقی کرتی ہے جو اسی زبان کو ذریعہ تعلیم بناتی ہے جس زبان میں وہ سوچتی ہے۔ دنیا میں شاہد ہی کوئی قوم ہو جس نے دوسروں کے قدموں سے زمین کو ناپا ہو اور پیمائش کے معیار پر پورا اترا ہو۔ ہمیں لازمی کوشش کرنی چاہیے
    کہ اردو کو قومی زبان بنایا جائے دفتتری زبان کا درجہ اسے حاصل اور مقابلے کے ا متحانات کے جوابات اردو میں لکھنے کی اجازت دی جائے آئیے ہم سب مل کر ملک میں ایک سماج بنانے کی کوشش کریں سلیم آذر

    جواب دیںحذف کریں

ایک تبصرہ شائع کریں