ناصر عباس نیر
مجید امجد(29؍جون1914۔11 ؍مئی 1974) کی برسی کے حوالے سے خصوصی تحریر

مجید امجد ان اشیا اور مظاہر کو اپنی نظم میں بطور خاص اور خصوصی جگہ دیتے ہیں جنھیں ادبی اشرافیہ حاشیے پر دھکیلتی ہے۔ وہ عام معمولی، حقیر اور کم
تراشیا کو اپنی نظم کے قلب میں لاتے ہیں۔ بذاتہِ یہ کوئی کارنامہ نہیں، اس لیے کہ نظیر اکبر آبادی سے خوشی محمد ناظر تک کئی شعرا اس روش پر گامزن رہ چکے ہیں۔ جو بات اسے غیر معمولی اور کارنامہ بناتی ہے، وہ یہ ہے کہ مجید امجد کی نظم میں شامل ہونے کے بعد یہ اشیا معمولی، حقیر اور کم تر نہیں رہیں۔ اشیا کا معمولی یا حقیر ہونا ان کا جوہری وصف نہیں، انھیں تاریخی عمل، سیاسی ترجیحات یا مقتدر ادبی شعریات کے دیے گئے مفاہیم ہیں۔ مجید امجد کی نظم اشیا کے یہ مفاہیم بدل دیتی ہے، بغیر سیاسی ترجیحات اور مقتدر شعریات کوبلند بانگ انداز میں چیلنج کیے!
’طلوعِ فرض‘، ’ پنواڑی‘ ، ’بن کی چڑیا‘، ’ جاروب کش‘، ’ پکار‘، ’ ہڑپے کا کتبہ‘ ،’ توسیعِ شہر‘ ، ’سفرِ درد‘، ’بارکش‘، ’ ہوٹل میں‘، ’ ایکسیڈنٹ‘ اور’ گوشت کی چادر‘ جیسی نظموں میں اشیا و مخلوقات سے ہمدردی ہی کا رشتہ استوار ہوا ہے۔ ان تمام نظموں میں پہلی مشترک بات یہ ہے کہ ان میں ظاہر ہونے والی اشیا و مخلوقات ’عام اور معمولی‘ ہیں، جنھیں عام طور پر شاعری کا موضوع نہیں بنایا گیا ۔مجید امجد کی نظموں کا متکلم اپنے باطن کی گہری سطحوں میں ان سب کے لیے دردمندانہ جذبات کو موجزن محسوس کرتا ہے اور جب یہ جذبات اپنے کلائمکس کو پہنچتے ہیں تو متکلّم بے اختیار کَہ اٹھتا ہے:
آج کھڑا میں سوچتا ہوں اس گاتی نہر کے دوار
اس مقتل میں صرف اک میری سوچ لہکتی ڈال
مجھ پر بھی اب کاری ضرب اک ، اے آدم کی آل
(توسیعِ شہر)
لیکن تیری ابلتی آنکھیں، آگ بھری پُرآپ
سارا بوجھ اور سارا کشٹ ، ان آنکھوں کی تقدیر
لاکھوں گیانی، من میں ڈوب کے ڈھونڈیں جگ کے بھید
کوئی تیری آنکھوں سے دیکھے دنیا کی تصویر
(بارکش)
مجید امجد کی مندرجہ صدر تمام نظموں کی ایک خصوصیت یہ ہے کہ ان میں ظاہر ہونے والے دردمندی کے جذبات کہیں بھی نمائشی ہیں نہ سطحی۔ ان کی نظموں کا متکلم شے کی حالتِ درد سے گہری باطنی سطح پر خود کو جڑا ہوا محسوس کرتا ہے اور اس دوران میں نہ تفاخر محسوس کرتا ہے نہ مصنوعی ترحم!
’بارکش‘ مجید امجد کی ہی نہیں اردو کی انوکھی نظم ہے۔ یہ کہنا ہرگز مبالغہ نہیں کہ ہمدری کے موضوع پر اس سے بہتر نظم اردو میں موجود ہی نہیں ہے۔ خود مجید امجد اس نظم میں اشیا و مخلوقات سے ہمدردی کے رشتے کو جو سطح تقویض کرنے میں کام یاب ہوئے ہیں، وہ سطح کسی دوسری نظم میں نظر نہیں آتی۔ ہرچند ’توسیع شہر‘ میں بھی وہ دردمندانہ جذبات کو ایک ارفع سطح پر محسوس کرانے میں کام یاب ہوئے ہیں، جہاں اس نظم کا متکلم درختوں کے ساتھ کٹ مرنے کی خواہش کرتا ہے، مگر ’بارکش‘ میں ہمدردی انتہا کو مَس کرتی ہے۔ ہمدردی کے باقی تمام رشتوں میں ہمدردی کرنے والا خود آگاہ رہتا ہے، وہ دوسرے کے درد کو اپنا درد بناتا بھی ہے تو اس عمل اور اپنی وجودیاتی شناخت سے برابر آگاہ رہتا ہے اور اسے قائم رکھتا ہے، مگر ’بارکش‘ میں متکلّم اپنی وجودیاتی شناخت کو ترک کرنے کی تجویز دیتا ہے۔ مجید امجد کی یہ نظم اس متھ کو اجتماعی انسانی نرگسیت قرار دینے کا شائبہ ابھارتی ہے ،اس لیے کہ گیانی اپنے من میں ڈوبتا ہے تو ہر طرف سے آنکھیں بند کرلیتا ہے،یہ سوچ کر کہ جو کچھ ہے ،اسی کے درون کی دنیا میں چھپا ہے،یہاں تک کہ پورے جگ کے بھید بھی ،لیکن اس جگ میں کتنے ہی مورکھ ،دکھیاروں کاخیال تک نہیں پایا جاتا ۔مجید امجد کی نظم میں اشیا سے ربط کی ایک سطح کو ’جمالیاتی سطح‘ کا نام دیا جا سکتا ہے۔
جمالیاتی ربط کی سطح مجید امجد کی ان نظموں میں بالعموم ظاہر ہوئی ہے، جو فطرت، مناظر یا موسموں سے متعلق ہیں۔ ان میں’گاڑی میں۔۔‘،’ بہار‘،’ صبح کے اجالے میں‘،’ بھادوں‘ اور’ صاحب کا فروٹ فارم‘ بطور خاص قابل ذکر ہیں۔ ان نظموں کی خصوصیت یہ ہے کہ ان میں فطرت کو کسی انسانی جذبے کا ترجمان بنا کر پیش نہیں کیا گیا ہے، نہ انھیں کسی ایسی جذباتی حالت میں گرفتار دکھایا گیا ہے، جو اصل میں انسانی حالت ہوتی ہے،یا اس کا انعکاس ہوتی ہے۔ ان دونوں صورتوں میں فطرت کو انسانی اور شاعرانہ مقاصد کے تحت بروے کار لایا جاتا ہے۔اس بنا پران کی اصل اور روح پر پردہ سا پڑا رہتاہے۔ دوسرے لفظوں میں فطرت کو ایک لسانی نشان متصور کیا جاتا ہے اور اس کے لغوی معنی سے گریز کرکے، اس کو استعاراتی اور علامتی معانی میں استعمال کیا جاتا ہے۔ فطرت کو مقصودِ بالذات کے بجائے ذریعہ خیال کیا جاتا ہے، مگر جمالیاتی فاصلہ قائم کرکے، فطرت بطور لسانی نشان کی لغوی حرمت کا احترام کیا جاتا ہے، اس کو مقصودِ بالذات سمجھا جاتا ہے اور اس کی اصل اور روح تک پہنچنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ مجید امجد نے فطرت کے ظاہر(appearance)اور اس کے غیاب کو یکساں اہمیت دی ہے ۔فطرت کا ظاہر حسن سے عبارت ہے ،اورغیاب قوتِ نمو سے ،اور ان دونوں میں نہ ثنویت ہے ،نہ ان میں سے کوئی ،دوسرے پر فضیلت رکھتا ہے۔جمالیاتی تعلق کی بنیادی رمز ہی یہی ہے کہ اشیا کی شئیت کو کاملاً قبول کیا جاتا ہے؛اس کے حصے بخرے نہیں کیے جاتے۔یہ تجربہ نشاط انگیز ہے۔ ان کی نظم میں بین الّسطور یہ اصرار ملتا ہے کہ فطرت کی روح سے دوری انسان کے لیے ایک بڑی محرومی ہے:
یہ بیکراں فضائیں جہاں اپنے چہرے سے
پردہ الٹ دیا ہے نمودِ حیات نے
شاداب مرغزار کہ دیکھی ہے جس جگہ
اپنے نمو کی آخری حد ڈال پات نے
گنجان جھنڈ جن کے تلے کہنی سال دھوپ
آئی کبھی نہ سوت شعائوں کا کاتنے
(گاڑی میں)
تمام چاندی جو نرم مٹی نے پھوٹنے بور کی چٹکتی چنبیلیوں میں انڈیل دی ہے
تمام سونا جو پانیوں ٹہنیوں شگوفوں میں بَہ کے ان زرد سنگتروں میں ابل پڑا ہے
تمام دھرتی کا دھن جو بھیدوں کے بھیس میں دور دور تک سردڈالیوں پر بکھر گیا ہے
رتوں کا رس ہے۔ سبو میں بھر لو
(صاحب کا فروٹ فارم)
مجید امجد کے اشیا سے جمالیاتی تعلق کے سلسلے میں دوایک باتیں مزید توجہ طلب ہیں۔ انھوں نے انگریز رومانوی شعرا کی طرح فطرت کو کسی مابعد الطبیعیاتی سچائی کی علامت نہیں بنایا؛ امجد جنگلوں، پرندوں ، پھولوں ،شام ، صبح ،بہار وغیرہ کو ایک ماورائی دنیا کا ظل نہیں سمجھتے،بلکہ زندگی کی بنیادی قوتِ نمو کا بے محابا اظہار سمجھتے ہیںفطرت سے متعلق امجد کی یہ نظمیں اس عمومی رائے کی تردید کے لیے کافی ہیں کہ مجید امجد کے یہاں محض یاسیّت اور زندگی کی مسرتوں سے گریز موجود ہے۔اگرچہ وہ بعض مقامات پر یاسیّت کو اس لیے پیش کرتے ہیں کہ ایک طرف انسانی زندگی کا انجام ان کے پیشِ نظر رہتا ہے، جو الم ناک ہے اور دوسری طرف یاسیّیت بھی زندگی کا حصّہ ہے، انسان لاکھ کوشش کے باوجود اس سے بچ نہیں سکتا۔ یاسیت خواہ کتنی ہی خوفناک اور تباہ کن ہو انسانی دنیا کی حقیقت ہے ؛کوئی التباس اور فریب نہیںاور اتنی ہی بڑی حقیقت جتنی رجائیت ہے۔ بعض اوقات رجائیت کھوکھلی اور یاسیت حقیقی ہوتی ہے؛بلکہ یہ کہنا بھی کچھ غلط نہیں کہ ہمیں رجائی بننا پڑتا ہے ،جب کہ یاسیت ہم پر غالب آتی ہے۔اصل دیکھنے والی بات یہ ہے کہ کیا مجید امجد یاسیت کے غلبے کے آگے ہتھیار ڈال دیتے ہیں ،یا اسے ایک ناگزیر حقیقت سمجھتے ہوئے، انسانی وقار کا لحاظ رکھتے ہوئے قبول کرتے ہیں،اور اس کے مقابل زندگی کا غیر یاسیت پسندانہ نقطہ ء نظر بھی پیش کرتے ہیں یا نہیں؟اس کے جواب میں مجید امجد کا بس ایک شعر کافی ہے۔
طلوعِ صبح کہاں ہم طلوع ہوتے گئے
ہمار اقافلہ بے دراروانہ رہا

Post a Comment