ایم زیڈ کنول |
فِطرت کے اُجیارے
رنگوں کی سنگت میں
میں نے لکھنا سیکھا تو
سب طائر میرے لفظوں کو
سُن سُن کر چہکا کرتے تھے
اُن کی اِس چہکار پہ سب
اشجار بھی مہکا کرتے تھے
جھومتے جھومتے خوشیوں کی
بانہوں میں جھولا کرتے تھے
پھر اُن خوشیوں کے آنگن میں
خوشبوئیں یوں درآئیں
خوشبوئیں ہی اگنے لگیں
سب اپنے پرائے
خوشبو کے دامن میں
بسیرا کرنے لگے
پھر ایسا ہوا
اس خوشبو کو
کچھ قّزاقوں نے لوٹ لیا
وہ بغض وعداوت
مکرورِیا کے
پھول اُگانے آئے تھے
میرے لفظوں نے
اُن پھولوں کو
اِک آن میں آکر نوچ لِیا
اب میں ہوں
اور خوشبوئیں ہیں
اور
اُلفت کے مِضراب پہ گاتی
قوسِ قزح کی ز نجیریں ہیں
ایم زیڈ کنول پاکستان کو وہ سرمایہ ہے جو اپنے قلم کی روشنی سے نجانے کتنے دلوں کے اندھیرے دور کر رہا ہے یہی وجہ ہے کہ آپ کی غزلیات میں خوشبوئیں ہیں روشنی ہے اور ان کے اطراف نجانے کتنے جگنو منڈلا رہے ہیں جو ایم زی کنول کے تخیل کو روشن رکھتے ہیں میری دعائیں ہمیشہ ساتھ ہیں
جواب دیںحذف کریںماشااللہ اردو ادب کی ایک معتبر شخصیت ............ بہت دعائیں
جواب دیںحذف کریںماشااللہ اردو ادب کی ایک معتبر شخصیت ............ بہت دعائیں
جواب دیںحذف کریں......نذیر اے قمر ..........
Mzkuwal urdu adb mai ak umdha izafa
جواب دیںحذف کریںمحترم نسیم شیخ و نذیر اے قمر صا حب اور زیب النسا زیبی ڈیئر آپ سب احباب کی حوصلہ افزائی کا بہت شکریہ۔ نسیم شیخ صا حب آپ احباب ہی جگنو ہیں ۔ سلامت رہئے۔ آمین
حذف کریںایک تبصرہ شائع کریں