واصف سجاد کی کتاب کی تقریبِ رونمائی کے موقع پر
 ساھیوال میں اظہارخیال کرتے ہوئے
واصف سجاد کی کتاب کی تقریبِ رونمائی کے موقع پرپڑھا جانے والا رضاالحق صدیقی کا  بولتا کالم 
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
واصف سجاد،دبستانِ ساہیوال کا وہ شاعر ہے جو تعلیم تو انگریزی زبان میں دیتا ہے مگر شعر اردو میں کہتاہے اوربے ساختہ پن میں کہتا ہے۔
مرا وجود چمکتا ہے اس میں حیرت کیا
یہ چند روز رہا ہے ترے  خیال کے ساتھ
غالب کے شعر سے ماخذِ، سخن کیا کہہ نہیں سکتے،، کے نام سے اپنے پہلے مجموعہِ کلام کے ساتھ سامنے آیا ہے۔
ڈاکٹر اجمل نیازی کے خیال  میں واصف سجاد کی شاعری کسی نظر نہ آنے والے محبوب کے ساتھ ہم سخنی کا حاصل ہے اور ساتھ کے ساتھ لاحاصلی بھی ہے، اس حاصل اور لاحاصلی کی کشمکش نے اسے شاعر بنا دیا،وہ اپنے اندر کسی بستی کی تلاش میں ہے جہاں وہ ہجرت کر سکے۔ ابھی وہ کسی ہجر کے جہاں میں ہے۔وہ سوچتا ہے اور جانتا ہے کہ ہجر اور ہجرت میں کیا فرق ہے۔وہ انوکھا درویش شاعر ہے۔ لوگ تو سوچ کر بولتے ہیں مگر وہ سوچتا  تو ہے مگر بولتا نہیں ہے جب کہ  اسے سب خبر ہے، وہ باخبر سے زیادہ اہلِ خبر میں سے ہے اور دل کی خبر دینے کے لئے شاعری سے بڑھ کر کوئی سلیقہ نہیں ہے۔
درویش کو سب خبر ہے واصف
کچھ سوچ کے بولتا نہیں ہے
ہم کسی دوسرے کے بیان کو اپنی تحریر کے اثبات میں پیش نہیں کرتے اور آج بھی نہیں کر رہے لیکن کیا کریں کہ درویش کی صفات  اور باخبر ہونے کی صفت دو مختلف ہستیوں سے منسوب ہیں،باخبر ہونے کی صفت صرف ہر چیز کو تخلیق کرنے والے سے منسوب ہے اسے کسی بھی درویش سے منسوب نہیں کیا جا سکتا۔ پھر واصف  سجادنے یہ دعویٰ کیا بھی نہیں ہے۔ واصف اور درویش دو مختلف شخصیات ہیں انہیں یکجا کرنا اچھا نہیں ہے۔ واصف سجاد کا شعری افق اس سے کہیں وسیع ہے جتنا ڈاکٹر اجمل نیازی نے اندازہ لگایا ہے۔اس کا فلسفہ۔۔ ہجر اور ہجرت کا فلسفہ نہیں ہے کیونکہ وہ تو کہہ رہا ہے:
کچھ سمجھ آتا نہیں کیسے ہیں دونوں ساتھ ساتھ
جسم کے اپنے تقاضے، روح کی اپنی طلب
او ر پھر درویش کی تو دنیا ہی کوئی اور ہے۔ انسانی جبلت اور روح کی طلب کی یکجائی، یہ کسی اور ہی دنیا کی سیر ہے۔ یہ فکر و فن کی نئی جہت ہے، کلاسیکی کہانیوں میں دونوں سمتیں جھلک دکھاتی ہیں انسانی جبلت بھی اور روح کی طلب بھی،عشق کے نیارے یہ رنگ پنجاب کے انہی علاقوں کی دین ہیں،راوی کے اس پار یا راوی کے ادھر لیکن مٹی کی خوشبو اور پنجاب کی ہریالی عشق کو کئی رنگ دے گئی ہے۔جس میں  نہ ہجر ہے نہ ہجرت۔
واصف سجاد نے،،دل کو کئی کہانیاں یاد سی آ کے رہ گیئں،،کے عنوان تلے دل کی باتیں کرتے ہوئے دیوانِ غالب سے لے کر دبستاں ِ ساھیوال  کے ہر شاعر کا ذکر کیا ہے۔  ہمارا اس وقت  شعر ی مجموعے،، سخن کیا کہہ نہیں سکتے،، کے حوالے سے واصف کی یہ گفتگو تحریر کرنے کا مقصد صرف یہ ہے کہ یہ جائزہ لیا جا سکے کہ واصف پر غالب کے علاوہ کس کس کے اثرات نظر آتے ہیں، لیکن سچی بات تو یہ ہے کہ واصف سجادکی شاعری کی پختہ کاری میں غالب اور بشیر احمد بشیر کا ہاتھ تو ہے اورواصف سجاد کا لا شعورغالب سے تعلیم یافتہ بھی ہے،اسی غالب سے کہ جس کے تصوراتِ عشق کے اہم لوازم میں غم،تصوف،جسم،داخل اور خارج،نیرنگیِ دوراں، انسان دوستی،بے باکی،انا،عشق،شکستگی شامل ہیں۔غالب نے غمِ جہاں کے لئے غمِ روز گار کی اصطلاح استعمال کی اور بظاہر اسے غمِ یار سے جدا کرنے کی کوشش کی لیکن حقیقت  یہ ہے کہ انہوں نے دونوں کو ملا کر ایک کر دیا۔وہ عشق کو اجتماعیت سے یوں جوڑ دیتے ہیں کہ داخل اور خارج کا فرق مٹ جاتا ہے اور شعر کا رشتہ محبوب کے ساتھ سیاستِ دنیا سے بھی جڑ جاتا ہے،
دردِ دل لکھوں کب تک جاؤں ان کو دکھلاؤں 
انگلیاں فگار اپنی،خامہِ خونچکاں اپنا
قد و گیسو میں قیس و کوہکن کی آزمائش ہے
جہاں ہم ہیں وہاں دارورسن کی آزمائش ہے
لکھتے رہے جنوں کی شکایاتِ خوں چکاں 
ہر چند اس میں ہاتھ ہمارے قلم ہوئے
یہ سب اشعار عاشقانہ تلازمات کے باوجود سیاسی مفہوم بھی رکھتے ہیں۔
اب ہم آتے ہیں سخن کیا کہہ نہیں سکتے کے شاعر واصف سجاد کی طرف۔غالب کے اس تصورِ عشق کو سامنے رکھتے ہوئے ہمیں یہ بات کہنے میں کوئی تردد نہیں ہے کہ واصف کی شاعری کی پختگی اور لاشعوری تعلیم میں غالب کا سب سے بڑا ہاتھ ہے۔وہ کہتا ہے۔
کیا غضب لوگ تھے جو لکھتے رہے
موت کے سامنے سطورِ حیات
رہنمائی جنوں نے کی واصف
تب مقامِ شعور تک پہنچے
واصف کی شاعری میں اگرچہ عشق کی مستیاں تو ہیں لیکن اس کا کہنا  ہے۔
 سخن دیار میں شاداب موسموں کے لئے
ہوائے درد سے وابستگی ضروری ہے
 درد سے وابستگی یعنی اداسی واصف سجاد کی شاعری کا ایک بلیغ استعارہ  ہے۔یہ استعارہ پھیلتا ہے تو واصف کے ہر شعر کو اپنے دامن میں سمیٹ لیتا ہے۔واصف نے غزل کی روایت کے پیشِ نظر یوں تو سینکڑوں مضامین اپنے شعروں میں پیدا کئے ہیں لیکن اس کی انفرادیت یہ ہے کہ ان سب پر اداسی کی چھاپ بہت گہری ہے۔جب شاعرانہ خیال کی روشنی اداسی کے پرزم سے ہو کر گذرتی ہے تو دھنک رنگ مضامین سامنے آتے ہیں لیکن ان رنگوں کو پرزم کے وجود سے علیحٰدہ بھی نہیں کیا جا سکتا۔ان موضوعات کی رنگا رنگی کے پیچھے سب سے دقیع حوالہ اداسی ہی بنتا ہے۔وہ اداس موسم سے محبت کرتا ہے کہ یہی موسم اسے تخلیقِ شعر پر آمادہ کرتا ہے اسے دل کی اداسی کا شدید احساس ہے لیکن وہ اس احساس کو حد سے بڑھی ہوئی قنوطیت  میں تبدیل نہیں ہونے دیتا۔واصف سجاد اداسی کو زندگی کا لازمی جزو سمجھ کر قبول کرتا ہے۔اداس موسم اسے وحشت نہیں بخشتے بلکہ اس کے تخیل کے گیسو سنوارتے ہیں۔
معجزہ ہے مل جائیں اگر آسودہ و خنداں چہرے
ورنہ تو ہر شخص دکھوں سے بھری کتاب ملے گا
پیرہن گہری اداسی کا تھا اس کے جسم پر
رنگ خال و خد پہ تھا ٹھہرا ہوا صدمات کا
کیا تھیں اداسیاں جو رہیں ساتھ عمر پھر
کیا نغمہِ طرب تھا جو گایا نہیں گیا
ترے بغیر شبوں کی اداسیاں گہری
ترے بغیر دنوں کا بجھا ہوا چہرا
نہیں ہے بچوں کے چہروں پہ بھی ہنسی اب تو
کچھ ایسی پھیل گئی ہے وبا اداسی کی
 غزل کی صدیوں پرانی داستان کو نئی طرز سے سنانا بڑا مشکل کام ہے اور واصف سجاد نے یہ کام نہایت آسانی اور مہارت سے کر دکھایا ہے۔
،،سخن کیا کہہ نہیں سکتے کی غزلیں فلسفیانہ تصورات سے الجھے بغیر دعوتِ فکر
 دیتی ہیں۔یہ غزلیں ہماری روح کو تغزل کی لذت سے آشنا کرتی ہیں۔غزلوں کی روانی، تازگی اور سحر کاری کو ان چند اشعار میں محسوس کیا جا سکتا ہے۔
کیا کہیں کتنی دور تک پہنچے
دیکھنے تجھ کو طور تک پہنچے
کیا غضب لوگ تھے جو لکھتے رہے
موت کے سامنے سطورِ حیات
تمام شہر کے آئینے تو نے توڑ دئیے
دکھائی دے گا تجھے کس طرح ترا چہرا
ترا غرور بجا ہے جمالِ یار تجھے
مری نگاہ کی زیبائیاں میسر ہیں 
لفظوں سے چلو اتار پھینکیں 
برسوں کا پھٹا ہوا لبادہ 
سارا تیرا  عکس ہے
دیکھ میرے دیوان میں 
آخر میں اتنا کہوں گا کہ واصف سجاد  اردو شاعری کی سلطنت میں ایک نئے  دور کا آغاز ہے جس کی غزل جدید اور قدیم روایات کا امتزاج ہے اورہمارا ذاتی خیال ہے کہ وہ غالب اور گلزار کی جمالیاتی روایات کی توسیع  ہے۔


1 تبصرے

ایک تبصرہ شائع کریں