انور زاہدی
دل دھڑکتا ہے میں ہوں اور تم ہو
کون سُنتا ہے میں ہوں اور تم ہو
ایسی ویرانی شب میں بھی کہاں
کوئی آتا ہے میں ہوں اور تم ہو
کون سرما کی بارشوں میں بھلا
بُوندیں گنتا ہے میں ہوں اور تم ہو
ساز بجتے ہیں رات پڑتے ہی
رقص ہوتا ہے میں ہوں اور تم ہو
روشنی چھُپتی ہے آتی ہے نظر
سایہ پھرتا ہے میں ہوں اور تم ہو
شام ڈھلتے ہی ایسا کیوں انور
مجھ کو لگتا ہے میں ہوں اور تم ہو

Post a Comment