انہیں حقیقتِ دریا کی کیا خبر امجد
وہ اپنی روح کی منجدار سے نہیں گذرے
دھیمے سرکتے سائیکل کے دو پہیوں کے ساتھ  تیز دوڑتا  زمانہ آخر اس نہج پر آ پہنچا کہ سڑک پر سرخ داغ کے کنارے بیٹھ اک دکھ بھرا دل نوحہ کناں تھا تو آج مسکنِ علم کے دروبام پر گولیوں کے نشان اور ڈھیروں ابلتے سرخ رنگ کے داغ،چیختی روحوں اور بلبلاتی کراہوں کے بیچ غراتے بھیڑئیے گولیاں برساتے ہوئے قہقہہ زن ہیں اور کوئی مجید امجد نہیں کہ مرثیہ خواں ہو کر میرے رکے ہوئے آنسوؤں کے بند کو توڑ دے۔المیہ یہ بھی ہے کہ دکھ کے سایوں میں منافقوں کی پرچھائیاں منڈلا رہی ہیں اور ڈھاٹے باندھے قوالوں کے ہم نوا ہم سے تعزیت کناں ہیں،ان کے دلوں پر مہریں اور کان بہرے ہیں۔معصوم خون کی فریاد مجید امجد نے سنی تھی۔
،، میں نے تو پہلی بار اس دن
اپنی رنگ برنگی قاشوں والی گیند کے پیچھے
یونہی ذرا ایک جست بھری تھی
ابھی تو میرا روغن بھی کچا تھا
اس مٹی پر مجھ کو انڈیل دیا کس نے
اوں اوں۔۔میں نہیں مٹتا، میں تو ہوں،اب بھی ہوں،،
(ایکسیڈنٹ۔۔کلیات ِمجید امجدص۔669)
معصوموں کے خون ا نمٹ ہوتے ہیں اور قرطاسِ دل پر نقش ہو جاتے ہیں اسی لئے کہتے ہیں کہ اتنے بڑے سانحہ کا ادراک ہر فرد کوہو گیا ہے،لیکن مجھے شک ہے کہ جلد پھر وہ بے حس مصلحت کوش اورمفاد  زدہ لوگ وحشی درندوں کے لئے بالواسطہ شعلہ زن ہوں گے تو مجید امجد کا شعر سچا ثابت ہو گا۔
انہیں حقیقتِ دریا کی کیا خبر امجد
وہ اپنی روح کی منجدار سے نہیں گذرے
مجید امجد کی مشاہداتی قوت اس لئے بھی قابلِ اعتبار و یقین ہے کہ وہ اپنی روح کی منجدار سے اک لمحے  کو بھی کبھی جدا نہیں ہوا۔
مجید امجد کی مشاہداتی استعداد کا دائرہ اور اس کا سبجیکٹ(subject)بہت وسیع اور ہمہ جہت(multi dimentional) ہے۔ اور ان سے اخذ ہوئے نتائج اپنی ہیئت میں منطقی ہیں۔مثال کے طور پر وہ کہتا ہے۔
،،اسی کرہ کے جوف سے تم نے کشید کیا
انگاروں سے بھرا سیال غرور
لیکن کس کی تھی یہ مٹی؟ ہم سب کی
اسی مٹی کی وریدوں سے کھینچا ہوا سیال غرور
سب میں بٹ جاتا
تو یہ دیس دلوں کے سجدوں سے بس بس جاتا
تم نے بجھتے بھڑکتے ان انگاروں کو
اپنی روحوں میں بویا
اور نفرت کاٹی،،
(بے ربط۔کلیاتِ مجید امجد،ص۔ئ467)
مجید امجد کے تاریخی، عمرانی اور سماجی شعور میں گندھی مشاہداتی قوت کی تہہ در تہہ موجودگی،ان کی شاعرانہ عظمت،عصرِ حاضر کے مسائل اور ان کے بیچ علت و معلول کے رشتوں کو اجاگر کرنے سے بے مثل بن کر ابھرتی ہے۔ مجید امجد نے ارادہََ  فلسفیانہ طرزِ اظہار اختیار نہیں کیا بلکہ ان کے اشعار کی آمد اک الہامی کیفیت کا پتہ دیتی ہے۔
تم نے بجھتے بھڑکتے ان انگاروں کو
اپنی روحوں میں بویا
اور نفرت کاٹی
اب دیکھ لیجئے عصرِ حاضر میں طالبان،وحشی درندے نفرت بو رہے ہیں اور نفرت کاٹ رہے ہیں۔چارلی ایبڈو نفرت بو رہا ہے،نفرت پھیلا رہا ہے اور نفرت کاٹ رہا ہے۔دنیا کا کون سا کونہ ہے جہاں نفرت بوئی اور کاٹی نہیں جا رہی۔انسانی تہذیب کی اس سے بڑی بد قسمتی کچھ اور ہو ہی نہیں سکتی کہ بھڑکتے انگارے اس کا مقدر ہیں اور دعویٰ مہذب ہونے اور تہذیب کے معمار ہونے کا؛
اسی نظم میں وہ کہتے ہیں۔
،،ان انگاروں پہ تم نے اپنے چہرے ڈھالے ٹکسالوں میں
مقصد لوہے اور فولاد کا یہہ جنگل تو نہیں تھا،ہونے کو تو جس کی
اک اک دھڑکن میں تہذیبیں ہیں
کیسی تہذیبیں؟
کائنات میں اک کرۂ زمیں جس کی حیثیت ایک ذرہِ ریت سے بھی کم ہے۔ اس پر رہنے والا یہ بے توقیر انسان خالقِ کائنات سے تو ٹکر لیتا ہی ہے اس کے بھیجے پیغمبروں اور مصلحوں کی تعلیمات کی عملی نفی کرتے ہوئے تکبر کے سنگاسن پر جھولتا،ساتھی انسانوں کا خدا بننے کی فکر میں غلطاں ہے اور کمال ڈھٹائی سے اس نے ایسا سماج ترتیب دیا ہے جس میں دو ٹانگوں پر رینگتے حقیر انسانی حشرات اس کے لئے دن رات پتھر ڈھوتے ہیں اور بس اتنا رزق پاتے ہیں جو ان کو اگلے دن کی مشقت کے لئے زندہ رکھے لیکن پھر انہی انسانوں میں کوئی باغی روح در کر آتی ہے اور اپنے ہونے پر مہر ثبت کرتی ہے ان کی نظم،، اس دن اس برفیلی تیز ہوا۔۔۔۔،، سے اقتباس
اس دن تم نے مجھ سے کہا تھا،
اک دن میرے لئے تم اس دنیا کو بدل دوگی،تم نے کہا تھا
اس دن بھری سڑک پر تم نے پیڈل روک کے
اپنے بائیسکل کو میرے بائیسکل کے ساتھ ساتھ چلا کر، مجھ سے کہا تھا
آپ ایسے لوگوں کو بھی روز یہاں پتھر ڈھونے پڑتے ہیں،روٹی کے ٹکڑے کی خاطر
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اور اس دن میں نے دل میں سوچا تھا،
کیسا شہر ہے یہ بھی،ایسی ایسی باغی روحیں بھی اس میں بستی ہیں
میں تو اسی تمہارے شہر میں اب بھی روز اک میز پہ پتھر ڈھونے جاتا ہوں
کاغذ  کے پتھر
لیکن جانے تم کہاں ہو، اے ری گول مٹول، سیانی گڑیا
اور اس نظم کی آخری لائن ہے۔
۔۔جانے پھر تم کب گذرو گی ادھر سے۔۔۔اس دنیا کو ساتھ لئے۔۔
گویا سماج کی بنت میں تبدیلی نہیں آتی اور اب بھی مجید امجد کے قبیلے کے صاحبان ِ عزو وقار تخلیق کار دو وقت کی روٹی کے لئے سماج کی بے رحم چکی میں پس رہے ہیں۔
مجید امجد عمیق مشاہدات کا شاعر ہے، ماحول، فرد اور سماج کو جس طرح سے وہ اپنی اصل میں ہیں، مجید امجد خود دیکھتا اور دیکھنے کی دعوت دیتا ہے۔کلاسیکل ترقی پسندوں کی طرح  وہ کسی سدھار کا لائحہ عمل تجویز نہیں کرتا لیکن قاری کے دل کے نہاں خانوں میں تخلیقی فکر کا بیج بو دیتا ہے جس کا نمو پانا دل کی اپنی زرخیزی پر منحصر ہے۔
،، جدھر جدھر بھی دیکھوں۔۔۔
ہر سو پھول  ہیں کانٹے ہیں کرنیں ہیں اندھیارا ہے
پھر یہ سب کچھ۔۔ اک اک راحت اک اک جھنجھٹ۔۔آپس میں گڈ مڈ ہے،
اور یہ سب کچھ  مجھ کو گھیرے ہوئے ہے،
ہر دم ایک پریشانی ہے، جس کے باعث
اپنے جی میں لہو کے پسینوں کی ٹھنڈک ہے
۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔
اور اس نظم کی آخری لائن ہے۔
اک دن یہ مٹی ان کے قدموں کے نیچے سے سرک گئی۔۔۔ تو۔۔
کسی بھی معاشرہ میں تمام افراد ایک جیسے یعنی ایک دوسرے کی ڈیٹو کاپی نہیں ہوتے۔علم نفسیات فرد کی انفرادی تفاوت(Individual Differances)کو تسلیم کرتا ہے۔ تمام تر عملی اور فکری اختلاف  کے،وہ ایک سماج کی لڑی میں پروئے ہوئے ہوتے ہیں۔ مجید امجد جلوت اور خلوت کے فرق کو تسلیم کرتے ہوئے اس  وقت  جھٹکا کھاتا ہے  جب کسی فرد کا ڈھاٹا کھل جائے تو وہ پریشان ہو جاتا ہے ان کی نظم،چھٹی کے دن، سے چند لائینیں
لیکن وہ نہیں جھجھکا
میں ہی اس کے اصلی روپ کو دیکھ کر سہم گیا تھا
اس کے گرد تو اک مکر کا ہالا ہی اچھا تھا
یہ سوچا اور اس سے رخصت چاہی

اس دن شام کو پھر میلے میں اس سے ملا میں۔۔۔۔
میں نے اس کو پایا سارے حربوں سے مسلح
چہرے پر اِکساتے ہوئے کچھ تیور
جیسے وہ  بس کاٹھ کی روٹی اور پرنور خیالوں پر زندہ ہو
ایسے منافقتوں بھرے معاشرے میں آپ  خیر کی کیا توقع کر سکتے ہیں؟ ایسا ہی اک اور مشاہدہ،ان کی نظم ہے،،ان لوگوں کے اندر۔۔۔۔(کلیاتِ مجیدامجد۔ص۔519)
،، ان لوگوں کے اندر جن کے اندر میں بھی ہوں
میرے برعکس، ایسے بھی
ہیں کچھ لوگ،
جن کی باتوں کے کچھ  سچے روپ، ان کے حربے ہیں
لیکن یہ سچ ان کا نہیں ہوتا
یہ سچ اوروں سے چھینا ہوا ہوتا ہے
اپنے جھوٹ اور اپنی بدی کو چھپانے کی خاطر
وہ اوروں کی اک اک اچھائی کو ہتھیا لیتے ہیں
اور پھر اس ہتھیار کو لے کر جب وہ چلتے ہیں
ساری دنیا ان سے ڈرتی ہے،
اور اس نظم کی آخری لائینیں ہیں
،، سچے لوگ اگر جیوٹ ہوں،کون ان کے منہ آئے گا
جھوٹ کے اس تالاب کے سب کچھوے
اپنے اپنے خول میں، اپنے اپنے  کالے ضمیروں میں
چھپ جائیں گے،،
ادیب ہوں، شاعر ہوں، فن کار ہوں،تخلیق کار ہوں،یہ کسی نہ کسی معاشرے کا حصہ ہوتے ہوئے بھی حصہ نہیں ہوتے۔ان کا شعور و لاشعور اچھائی سے گوندھا گیا ہوتا ہے جو انہیں بلند فکری عطا کرتا ہے۔ وہ جو مشاہدے کرتے ہیں صرف بیان کی حد تک بیان نہیں کرتے بلکہ انسانی معاشرہ کی اجتماعی فکر کو درست سمت عطا کرتے ہیں اور یہ فکری ورثہ بلا کسی جبرو کراہ، ایک ذہن سے دوسرے ذہن کو منتقل ہوتا ہے اور اس کے بطن سے کبھی بھی جبرو و تشدد برآمد نہیں ہوتا۔
مجید امجد بھی وسیع تر افقی وعر
ضی مشاہداتی میدان کا مسافر ہی نہیں بلکہ وہ جدید سائنس کے مطابق چہار جہت مطالعہ و مشاہدہ کا شاعر ہے۔مجید امجد کو اپنی اپنی فکری استعدداد کے مطابق ہی سمجھا اور اپنے من میں اتارا جا سکتا ہے۔جہاں دقت آتی ہے   وہ جہتdimentionکی تفہیم کا فرق ہوتا ہے جسے آج کی اصطلاح میں ایک پیج پر ہونا کہتے ہیں۔یہ فکری الجھاؤ کا معاملہ قطعاََ نہیں ہوتا۔ مجید امجد  ایک جہت سے نظم کا آغاز کرتا ہے اور پھر بڑی مہارت سے دوسری،تیسری اور چوتھی جہت میں غیر محسوس طریقہ سے قاری کو لے جا کر اسے بتاتا ہے کہ
،،پھر بھی آج تو سوکھے سوکھے حلق اور سوجھی سوجھی پلکوں سے
اس دنیا کودیکھنے میں جو دکھ ہیں،جو ارمان ہیں،یہی عمروں کا حاصل ہیں،،
عمروں کے اس حاصل کو حاصل کرنے کے لئے تیز رفتار زمانے کے پاس اتنا وقت کہاں ہے۔اب تو گولی ہے بم ہے،خود کش جیکٹ ہے اور چہارسو  موت کے سائے ہیں اور خوف میں ڈوبے ہم ہیں لیکن مجید امجد کا عصری شعور ہمیں زندگی کی نوید دیتا ہے۔
،، میں بھی کہتا تھا،۔۔ اور میں اب بھی کہتا ہوں۔۔۔
اک دن شعلوں کی یہ باڑ بجھے گی
اک دن اس پھلواڑی تک ہم بھی پہنچیں گے جس کی بہاریں ہماری روحوں
کے اندر ڈھلتی ہیں،،
(نظم: نئے لوگو۔کلیا ت مجید امجد۔ص581)
.........................................
۔  راؤ شفیق احمد
113wسکیم نمبر 2ساھیوال
0321-6909004



Post a Comment