نصیر کوٹی
مرّیخ و ماہتاب نہیں چاہیئے مجھے
تم آسماں طلب ہو زمیں چاہیئے مجھے
پھرتا ہوں کب سے گھر کا اثاثہ لیے ہوئے
ملتا نہیں ہے جیسا امیں چاہیئے مجھے
قصرِ بسیط دل کی طلب ہے ہوا کرے
میں جانتا ہوں کتی زمیں چاہیئے مجھے
جس پر کسی کا طنز نہ تضحیک ہو گراں
ایسی شکن سے پاک جبیں چاہیئے مجھے
غارت گرِ چمن یہ تلافی کی شرط ہے
جو شاخ جس جگہ تھی وہیں چاہیئے مجھے
جس سے مری انا پہ لگے ضرب اے نصیر
ایسا بھی التفات نہیں چاہیئے مجھے
بے خوف و بے ہراس ہراک گام پر نصیر
تعمیلِ حکمِ سرورِ دیں چاہیئے مجھے

Post a Comment