نقشبند قمر نقوی
اسی سر و کشیدہ کو چمن پہنا دیا ہے
حسیں الفا ظ سے رنگ سخن پہنا دیا ہے
و ہی تھی منفرد شو کت کی دیرینہ روا یت
اسی تہذ یب کو سب نے کفن پہنا دیا ہے
بہت دشوا ر ہے مفہوم ہستی کا سمجھنا
وہی جس کو ز بر دستی بدن پہنا دیا ہے
کہیں ایسا نہ ہو انسا ں اسے ا غوا ہی کر لیں
ز میں کو اس لیے چر خ کہن پہنا دیا ہے
یہ دشمنِ وقت ا چھا تھا اگر عر یا ں ہی رہتا
اسے انسان نے ہی ما ہ سن پہنا دیا ہے
ر ہا تا عمر میں اس آ ر زو کے ہی تعا قب میں
جسے اہل جنو ں نے حسن ظن پہنا دیا ہے
اگر چہ نقشبند اب تک تھا یہ سا دہ تخیل
اسے میں نے لبا س فکر و فن پہنا دیا ہے

Post a Comment