ڈیلس کی ادبی انجمنوں کے تعاون سے ہندوستان کے معروف  بزرگ شاعر پروفیسر کلیم عاجز کے ساتھ شام منائی گئی جس میں اُردو گھر ڈیلس کے بانی ڈاکٹر عامر سلیمان‘ النور انٹرنیشنل کے بانی و چیئرمین نور امرہوی‘ ڈیلس کے معروف شاعر سید یونس اعجاز‘ سعید قریشی‘ شاہ عالم صدیقی‘ ڈاکٹر شمسہ قریشی‘ مائیک غوث سمیت مقامی شعراء‘ سیاسی و سماجی‘ ادبی تنظیموں کے رہنماؤں اور مقتدر شخصیات نے شرکت کی۔ مشاعرے کا اہتمام امریکہ میں مسلم ڈیموکریٹک کاکس کے شریک چیئرمین سید فیاض حسن نے کیا تھا۔ مشاعرے کی صدارت امریکہ کے معروف شاعر کرامت گردیزی نے کی جبکہ مشاعرے کی نظامت معروف شاعر نور امرہوی نے کی۔ مقامی شعراء نے مہمان خصوصی پروفیسر کلیم عاجز کو زیادہ سے زیادہ سننے کی وجہ سے ایک غزل پر ہی اکتفا کیا تاہم مقامی شعراء نے بھی اپنا کلام بھرپور طریقے سے پیش کیا اور حاضرین سے ڈھیروں داد وصول کی۔ پروگرام کے منتظم سید فیاض حسن نے پروفیسر کلیم عاجز کا مشاعرے میں خیرمقدم کرتے ہوئے کہاکہ کلیم عاجز جیسی شخصیات برسوں میں پیدا ہوتی ہیں انہوں نے کہاکہ انڈیا کی سابق وزیراعظم اندرا گاندھی کے سامنے انہوں نے اپنے اشعارکے ذریعے اُن پر طنز کے تیر چلائے اور وہ کچھ کہہ دیا جس کی کوئی جرأت نہیں کر سکتا۔ النور انٹرنیشنل کے چیئرمین نور امرہوی نے خطاب کرتے ہوئے کہاکہ پروفیسر کلیم عاجز کی غزلوں کے حروف میں مروت کے موتی ہیں اور جب بھی یہ نوک قلم سے مسائل کردیتے ہیں تو ان کے قلم کی نوک مصور کی شکل اختیار کر لیتی ہے۔ معروف شاعر سید یونس اعجاز نے کہاکہ ایشین امریکن رائٹرز کے پلیٹ فارم سے وہ پروفیسر کلیم کاجز کو امریکہ آمد پر خوش آمدید کہتے ہیں۔ اُردو گھر کے بانی ڈاکٹر عامر سلیمان نے بھی پروفیسر کلیم عاجز کی خدمات کے بارے میں ان کو زبردست خراج تحسین پیش کرتے ہوئے کہاکہ موجودہ دور میں ان کی شخصیت آج کل کے شعراء کیلئے مشعل راہ ہے۔ مشاعرے کے صدارتی خطاب میں معروف شاعر کرامت گردیزی نے کہاکہ شاعری مسائل حیات کے اظہار اور اس کی ترجمانی کا نام ہے اور کلیم عاجز کی شاعری قدیم و جدید دونوں کا امتزاج ہے۔ انہوں نے کہاکہ جب ہم ایسی شخصیت کے ساتھ بیٹھتے ہیں تو کچھ نہ کچھ سیکھ کر ہی اُٹھتے ہیں۔اس موقع پر پروفیسر کلیم عاجز نے اپنا کلام حاضرین کے سامنے پیش کیا تو ہر طرف سے واہ واہ اور مقرر مقرر کی صدائیں بلند ہوتی رہیں،ان کے چند اشعار کچھ یوں تھے:
جب کبھی عالم مستی میں غزل کہتے ہیں
آج کہہ دیتے ہیں ہم‘ لوگ جو کل کہتے ہیں
وہ بہاتا ہے لہو اور غزل سنتا ہے
ہم لہو گھونٹتے ہیں اور غزل کہتے ہیں
درد و غم جمع کیا میرؔ نے ہم نے بھی کیا
وہ بھی کہتے تھے غزل‘ ہم بھی غزل کہتے ہیں
آزمانا ہے تو آ بازو دل کی قوت
تو بھی شمشیر اُٹھا ہم بھی غزل کہتے ہیں
محفل رات گئے تک جاری رہی اور ادب و سخن سے جڑے افراد پروفیسر کلیم عاجز اور دیگر شعراء کے کلام سے بے حد
محظوظ ہوئے۔
(رپورٹراجہ زاہد اختر خانزادہ):

Post a Comment