اس سے بہتر کوئی تصویر نہیں ہے مرے پاس
دیکھ سکتی ہے مجھے میری غزل میں دنیا
لیاقت علی عاصم نے دل آویز سوچ تصویریں اس اعلان کے ساتھ پیش کی ہیں کہ لفظوں کی بنت سے تخلیق کردہ اس سے بہتر کوئی تصویر ان کے پاس نہیں ہے۔لیاقت علی عاصم نے یہ اعلان اپنی تازہ ترین تخلیق،، نیشِ  عشق،، میں کیا ہے۔نیشِ عشق ان کی ساتویں تخلیق ہے۔
اس مجموعہ کلام میں سب سے پہلے ان کی اپنی ذات کے نقوش ابھرتے نظر آتے ہیں۔
قصرِ ہزار در میں مقفل ہوں ان دنوں 
اک فیصلے کی زد پہ مسلسل ہوں ان دنوں 
ایسا نزولِ شعر ہوا ہی نہیں کبھی
عاصم ہجومِ فکر سے پاگل ہوں ان دنوں 

میرے خیال میں شاعری دراصل  فن کار کی شخصیت سے آگہی ہے اسی عرفانِ ذات کے حوالے سے ہربرٹ  ریڈ کا کہنا ہے کہ،، یہ صرف فیضان ہی نہیں ہے جس سے کہ کوئی شخص شاعر بنتا ہے،بنیادی قوت، اپنی شخصیت کی آگہی ہے اور شخصیت کے خلقی ِ عمل اور حرکت کو، اندرونی بغاوت اور انتشار سے بچاتے ہوئے، پروان چڑہانے کی صلاحیت ہے،،
غزل کے کینوس پر جو تصویر بنتی ہے وہ ایک ایسے حساس فن کار کی تصویر ہے جسے عرفانِ آگہی ہے۔
دل پہ طاری تھا گریہِ اظہار
شعر کہنے لگا میں زاروقطار
حیرت بیان کی ہے تماشا نہیں لکھا
جیسا وہ ہے ابھی اسے ویسا نہیں لکھا
جو بات دل کے پاس آئی نہیں سنی
جو حرفِ درد سے نہیں گزرا،نہیں لکھا
شعر جیسے بھی کہے ہوں مگر اس ناز کے ساتھ
میں نے شہرت کے لئے شہر میں سازش نہیں کی
میرے خرمن کی شادابی ہے عاصم
حریفانِ سخن کی خوشہ چینی
عاصم بھی بن گئے تو جانئیے گا آپ
ہونا تھا جن کو غالب و اقبال، ہو چکے
عاصم ہنر شیشۂ گری کیوں چھوڑوں 
نقاد مرے شہر کے پتھر کے سہی
لیاقت علی عاصم کی شعری تصویروں میں مبالغہ آرائی نہیں ہے۔وہ جس طرح اپنی ذات کی سچی تصویر پینٹ کرتے ہیں اسی لمحہِ موجود کی مصوری بھی بڑی سادگی سے کرتے ہیں۔قابلِ تحسین بات یہ ہے کہ ماحول کی شبیہ کو پہلے اپنی ذات کی سیربین میں دیکھتے ہیں اور شعر کے کینوس پر منتقل کرتے ہیں۔
لفظ کا اتنا بھی معنی یاب ہونا ظلم ہے
خواب لکھتے لکھتے خود بھی خواب ہونا ظلم ہے
چند لہریں ساتھ بہتے اے مرے دریا مزاج
عین ساحل پر ترا گرداب ہونا ظلم ہے
لیاقت علی عاصم کی غزل کا بڑا وصف یہ ہے کہ اس میں خارجی اور داخلی ماحول کی جیتی جاگتی تصویریں ہیں اور انسانی فطرت اور باطن کی نغمہ بار تصاویر بھی۔تصاویر کی یہ دونوں اقسام جب یکجا ہوتی ہیں تو عاصم کے آرٹ کی تاثیر بڑہاتی ہیں۔پہلے خارج کی چند تصویریں دیکھتے  ہیں؛۔
صاف دیوارِ محبت نہیں رہتی اکثر
کچھ نہ کچھ خلقِ خدا لکھتی ہے ایسا ویسا
روز پیروں تلے کچلتا ہوں 
پھر بھی سر پر سوار ہے دنیا
دارورسن پہ  جھول گیا تھا وہ بے گناہ
وہ دن ہے اور آج کا دن مر رہے ہیں ہم
نہ جانے کتنے سناٹے مجھے آواز دیتے ہیں 
نہ جانے کتنی آوازیں مجھے خاموش رکھتی ہیں 
کہاں کی شاعری کیا شاعرِ جدید ہوں میں 
بس ایک حرفِ محبت سے مستفید ہوں میں 
تمہاری طرح سے لکھتا تو مٹ چکا ہوتا
یہ میں جو ہوں یہ روایات کا ثمر ہے میاں 
جیسا کہ میں نے ابتدا میں کہا لیاقت علی عاصم کی،،نیشِ عشق،، عرفانِ عشق یا عرفانِ ذات کا مکمل جواز پیش کرتی ہے اسے اپنی تحریر کی جدت اور رفعت کا عرفان ہے۔ وجدانی بینائی کی نعمت سے مالا مال ہو کر جب شاعر عملِ تخلیق سے گزرتا ہے تو اسے تخیل کے زور پر بڑی بڑی باتیں کرنے سے کہیں زیادہ ذاتی تجربے کی بنیاد پر سچی اور کھری بات کہنا پسند ہے۔
عاصم کی غزل ایک آئینہ خانہ ہے اور ہر آئینے میں اس کی ذات ہے البتہ تصویریں دیکھنے والوں کو یکسانیت سے بچانے کے لئے لیاقت علی عاصم نے کمال مہارت سے ہر تصویر کا پسِ منظر بدل دیا ہے۔
کئی عکسِ ماہِ تمام تھے مجھے کھا گئے
وہ جو خواب سے لبِ بام تھے مجھے کھا گئے
وہ جو بکھرے بکھرے سے لوگ تھے مرے روگ تھے
وہ جو متصل دروبام تھے مجھے کھا گئے
میں تو پہلے ہی کھٹکتا ہوں دلوں میں عاصم
کیوں مجھے آپ گلِ شاخِ ابد کہتے ہیں 
لیاقت علی عاصم نے اپنے مجموعہِ کلام کا نام الطاف حسین حالی کے اس شعر سے اخذ کیا ہے۔
اک عمر چاہیئے کہ گوارا ہو نیشِ عشق
رکھی ہے آج لذتِ زخمِ جگر کہاں

Post a Comment