انور زاہدی |
اک دور طلسمات تھا کیسا ہوا ہوا
کیا سحر التفات تھا کیسا ہوا ہوا
میں دیکھتا رہا طرف گرد کاررواں
سب حُسن و کرامات تھا کیسا ہوا ہوا
ہر سمت رنگ و نُور کی برسات الاماں
کیا عہد کرشمات تھا کیسا ہوا ہوا
باتیں تری وہ قصے فسانے عجیب رنگ
اک کُنج خرابات تھا کیسا ہوا ہوا
شمس و قمر نجوم کی وہ چیرہ دستیاں
عہد جمالیات تھا کیسا ہوا ہوا
انور گزرتی شام میں گر یاد آوں میں
اک برق کمالات تھا کیسا ہوا ہوا
ایک تبصرہ شائع کریں