کنور شفیق احمد دبستانِ ساھیوال کا ایک معتبر حوالہ ہے۔ان کی تمام زندگی درس و تدریس میں گذری ہے۔اردو ادب پر ان کی گہری نظر ہے۔محترمہ صبیحہ صبا کے پانچویں شعری مجموعہ ،، دل درد آشنا،، پر ان کا تبصرہ ادبستان کے قارئین کے لئے پیش کیا جاتا ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اردو شاعری سے دلچسپی رکھنے والے باذوق قارئین کے 
لئے صبیحہ صبا کا نام بہت معروف و معتبر ہے۔ صبیحہ صبا کی جائے پیدائش ساہیوال ہے۔ ان کے والد ضیا ء الحق صدیقی  مدرس تھے اور ان کا شمار اردو  فارسی کے جید اساتذہ میں ہوتا تھا۔ گھر کے علمی و ادبی ماحول نے صبیحہ صبا کی شاعرانہ  طبع کی خوب آبیاری کی اور یوں  1979  میں ابھی اوائل عمری تھی کہ پہلا شعری مجموعہ ،،لفظوں کا شہر،، منصہ شہود پر آیا۔ کتاب کی تقریبِ رونمائی و پزیرائی قابلِ رشک تھی جسے آج بھی یاد کیا جاتا ہے۔

صبیحہ صبا نے ،،لفظوں کا شہر،،سے جس فنی سفر کا  آغاز کیا تھا اس میں مسلسل ارتقاء و ارتفاع واضع طور پر دیکھا اور محسوس کیا جا سکتا ہے۔ 
 لفظوں کا شہر ... میں صبیحہ صبا نے اپنے لئے جو اسلوب چنا تھا وہ دن بدن نکھر تا گیا اور وہ پختگی کے اس مقام پر ہے جہاں شاعر ... صاحبِ اسلوب ... کہلوانے کا حقدار ہو جاتا ہے۔ اب یہ بات بلا خوف و تردید برملا کہی جاسکتی ہے کہ صبیحہ صبا ایک صاحبِ  اسلوب  شاعرہ ہے۔ اس کا لہجہ نرم و لطیف ہے، لفظوں کے چناؤ میں یہ احتیاط دکھائی دیتی ہے کہ کوئی بھی بھاری بھرکم  لفظ شعر میں در نہ کر جائے چاہے موضوع کتنا ہی ثقیل کیوں نہ ہو۔ کسی شعر میں بھرتی کا کوئی لفظ دکھائی نہیں دیتا۔ ان کے ہر شعر میں لطافت ہے ملاحت ہے۔ یہ کہنا بالکل جائز ہے کہ صبیحہ صبا کے ہاں شعر ی ملاحت ان کے اسلوب کا ایک نمایاں جز ہے۔ مثلاََ درج شعر میں موضوع کی تلخی ہے لیکن لہجہ پھول کی پتی کی سی کاٹ بھی رکھتا ہے ۔
       محنت کیا مزدوری کیا ہے 
        مٹی دھول میں اٹ کر دیکھ 
موضوع کی تلخی لہجہ پر غالب نہیں آئی  اور نیم کی نبولی سی تلخی باقی رہ گئی جو اس کے کلام کا خاصہ بھی ہے اور حسنِ ملیح بھی۔ 
صبیحہ صبا کا فنی سفر بھی ، دبلی، پتلی، نرم و نازک، ارمانوں بھری انڈلتی لڑکیوں کی طرح رومان ویت سے شروع ہوا تھا۔ اس کے شعر بادِ صبا سے جھولتی پھولوں بھری شاخوں کی لچک لئے نرمی سے دل میں اتر جاتے تھے پھر بھی ... لفظوں کے شہر ... میں کوئی نہ کوئی شعر اپنی خوشبؤں سمیت زندگی کی تلخ حقیقتوں کی طرف موہوم سا، لطیف سا اشارہ کر جاتا تھا لیکن ... دل درد آشنا ... میں تو کوئی ایک بھی شعر ایسا نہیں ہے جو فلسفہِ زندگی سے عبارت نہ ہو۔
زندگی ایک تلخ حقیقت ہے جس کی تلخیوں کو اس طرح بیان کر دینا کہ دل میں کسک پیدا ہوجائے اور ایک پھانس محسوس ہوتی رہے  اور انسان اس تلخ حقیقت کو ارماں بھری شاموں کے بدلے سودا کرنے پر مجبور ہو جائے۔صبیحہ صبا کی شاعری کسی انقلاب کی نوید نہیں ہے اور نہ ہی اس کے ہاں نعرہ بازی اور راست اقدام کی طرف اکسانے کا طرزِ اظہار۔ صبیحہ صبا کے ہاں معاشرتی اور معاشی شعور میں گندھے ہوئے اشعار اس کے سماجی شعور کی عکاسی کرتے ہیں۔ کوئی بھی سماج اپنے شاعر سے جس قوتِ  متخیلہ کی توقع کرتاہے وہ صبیحہ صبا میں خوبصورت اظہاری پیرائے میں موجود ہے اور یہ  فلسفیانہ کام ہے جو سماج کی نظریاتی سمت اور درست لائحہ عمل کے تعین میں مددگار ہوتاہے۔
چپ چاپ فضا ہے کوئی ہلچل بھی نہیں ہے
کیا کوئی یہاں درد سے بیکل بھی نہیں ہے 
بے حس ہیں یا ظالم کی حمایت میں کھڑے ہیں 
پیشانی پہ حیرت ہے کہ اک بل بھی نہیں ہے 
سانسوں کو بھی چلنے کی اجازت نہیں دیتے
کیا جبرِ مسلسل کا کوئی حل بھی نہیں ہے 
مشکل ہے بہت درد کے دریا سے نکلنا
رستے میں اگر چہ کوئی دلدل بھی نہیں ہے 
بجلی کی سی رفتار سے چلتی ہوئی دنیا 
کھوجائے اگر آج تو پھر کل بھی نہیں ہے 
یہ ایک تسلیم شدہ عالمی سچائی ہے کہ گزرا ہوا وقت لوٹتا نہیں، تساہل پسندی  یا  سست  روی کی فرد کی زندگی میں کوئی گنجائش ہے نہ  قومی زندگی میں یہی متذکرہ بالا شعر اسی سوچ کا عکاس ہے کہ آج ہے تو کل ہے ورنہ سب غارت۔
شاعری اور خاص طور پر اس دھرتی کی شاعری چاہے وہ کسی مقامی زبان میں ہومقصدیت سے کبھی خالی نہیں نہیں رہی۔ شاعری کا سب سے ادنیٰ مقصد لطف و حظ کی فراہمی ہے اس میں سفلہ پن سے پرہیز لازم ہے ورنہ شاعری لطفِ ادب سے خارج سمجھی جائے گی اور سوقیانہ قرار پائے گی۔ اسی طرح اگر شاعری فکری تغافل یا نظری تغافل کی حامل ہو تو بھی ادنیٰ درجے پر فائض ہوگی چاہے شعر کتنا ہی بلند آہنگ پر شکوہ الفاظ سے مزین ہو۔ نظری تغافل کسی طور جائز ہوسکتاہے لیکن فکری تغافل والے اشعار ٹوٹے تاروں کے وائلن جیسے ہونگے 
جو کسی بھی سُر کی تخلیق کے قابل نہیں ہوتا۔
صبیحہ صبا ایک نظریاتی شاعرہ تو نہیں ہے کیونکہ نظریہ سے مراد کلاسیکی  ترقی پسندی لی جاتی ہے جس میں ادب بعض اوقات نعرہ زن ہوکر ادبی خوبصورتی اور نزاکت سے بے بہرہ ہوجاتا ہے۔ ہاں فکری شاعری میں شاعر قاری کے فکری شعور کو مہمیز کردیتاہے اور اسے آزادانہ سوچنے کا سامان مہیا کر دیتا ہے۔ پہلے سے نتائج اخذ کرکے صبیحہ صبا شاعری نہیں کرتی لیکن وہ نتائج اخذ کرنے پر اکساتی ضرور ہے مثلاَ: 
یہاں انساں قیامت ڈھا رہے ہیں 
وہاں اک والیءِ محشر تو ہوگا
اس شعر پر جتنا غور کرتے جائیں معنی کے بہت سے در کھلتے جائیں گے قیامت سے بڑھ کر قیامت بپا ہوجاتی ہے جہاں کوئی والی وارث نہ ہو یعنی مکمل انارکی کی طرف اشارہ ہے اور جب والیِ قیامت موجود ہو وہاں قیامت صرف گناہگاروں کے لئے ہوگی کہ وہ تب صرف یومِ حساب و انصاف ہوگا۔ والی نہ ہو  تو قیامت سے بڑھ کر قیامت انسانوں پر بیت جائے گی اور سب حقیقی انصاف سے محروم ہو جائیں گے تو معاشرہ کب قائم رہے گا  فنا  ہوجائے گا۔ صبیحہ صبا کا الگ سے ایک  رنگ ڈھنگ اور بھی ہے جو ان شعروں میں ظاہر ہوتاہے:  
کیا بتاؤں کہ کیا میسر ہے
شہ رگوں کو خدا میسر ہے 
باخدا مستجاب ہوتی ہے
جس کو ماں کی دعا میسر ہے
ایک اور بات کہ عام سی بات صبیحہ صبا اس سادگی سے کہہ دیتی ہے کہ بندہ منہ تکتا  رہ جائے یا انگلی دانتوں میں داب لے۔ مثال کے طور پر:
ہمدرد بھی بن سکتے ہیں آزار کا باعث 
ہمدرد بھی دنیا سے نرالے نہیں ہوتے
اور خود احتسابی اس سے بہتر کیا ہوگی کہ:
بکھرے ہوئے ہیں ہم تو زمانے کو کیا کہیں 
ہم سے محبتوں کو پرویا نہیں گیا
شاعری سےمحبت کرنے والے اصحاب کو ... دل درد آشنا ... کا مطالعہ ضرور کرنا چاہیے ان کے ذہن میں کئی نئے فکری در کھلیں گے۔ 
........................................
نام کتاب :۔  دل درد آشنا  صنف :۔شاعری
شاعرہ :۔صبیحہ صبا      ۔   صفحات:   240
قیمت ،   300  روپے
ناشر  ،   اردو  منزل  پبلیکیشنز   ۔ بی ،  بلاک ۔  2 ۔  پی ای سی ایچ ایس ، کراچی
.........................................
کنور شفیق احمد ،
 ڈبلیو113، اسکیم نمبر 2، ساہیوال ،
ٹیلیفون نمبر :  -03216909004  ، 
(بشکریہ پنجاب لوک سجاب)  َ

Post a Comment