ساحرہ محمود
رات کے اندھیرے میں ،اک دیا سا جلتا ہے
ہجر کی مسافت میں ،چاند ساتھ چلتا ہے
ان گھنے درختوں کی ،خامشی بتاتی ہے
کوئی اک نیا طوفاں ،راستے بدلتا ہے
سردیوں کے موسم میں ،سرد سرد جھونکوں سے 
زخم پھر سے رِستا ہے ،درد پھر سے پلتا ہے
یہ کسی کو کیا معلوم ایک قطرهِ نایاب
کتنے مرحلوں کے بعد ،روشنی میں ڈھلتا ہے
ظرف پہ یہ ممکن ہے،چوٹ سب کو لگتی ہے
کون ٹوٹ جاتا ہے ،کون پھر سنبھلتا ہے
ریت سوکھی بنجر سی ،دھوپ تیز شدت کی
اور وجود دہقاں کا ،موم سا پگھلتا ہے
ہاتھ سے گرا لقمہ دے رہاہے عندیہ پھر
کوئی تھر کے صحرا میں بھوک سے مچلتا ہے
کتنے سال لگتے ہیں دل کا خون دےدے کر
خواب کوئی سجتا ہے،پھول کوئی کھلتا ہے

Post a Comment