سید انورجاویدہاشمی اپنے ہم عصر شاعروں سے قدرے مختلف یوں ہے کہ دوسرے شاعروں اور متشاعروں کے مقابلے میں اس کی شخصیت اور شاعری دونوں میں انانیت،توانائیت،خوداظہاری،خودنمائی اورخودنمائندگی ے عناصر شاذ شاذ ملتے ہیں۔ان کے ہاں خود کو منوانے Self Assertion کا جذبہ بھی نہیں پایا جاتا۔اس طرح کی بات کہ ٖ کر میں اس کے ہم عصر شعرا کی عیب جوئی اور اس کی توصیف نہیں کررہا ہوں صرف سید انورجاویدہاشمی کی شناخت اجاگر کرنا مقصود ہے۔ جب میں یہ کہٖتا ہوں کہ اس کے ہاں سیلف ایسرشن (خود کو منوانا)نہیں ملتا تو ہرگز میں یہ نہیں کہنا چاہتا کہ انور جاویدہاشمی سیلف نیگیشن(خود کی نفی کرنا)کرتا ہے۔اگر کوئی یہ کہے ’ رات نہیں ہے‘ تو اس کا یہ مطلب سمجھنا کہ وہ یہ کہٖ رہا ہے ’’ اس سمے دن ہے‘‘ غلط بھی ہوسکتا ہے۔عین ممکن ہے کہ اس سمے شام کا جھٹ پٹا ہو۔نہ تو رات ہو اور نہ ہی دن ہو۔سیدانورجاویدہاشمی(انور ہاشمی؍جاوید ہاشمی)کی شخصیت


اور شاعری دونوں کا مزاج خود حوالگی(خود سپردگی سے ہٹ کر)وارفتگی اور انکسار کے عناصر سے تشکیل پایا ہوا دکھائی دیتا ہے۔یہاں میں نہ تو کوئی حکم لگارہا ہوں اور نہ ہی کسی قولِ فیصل کا مرتکب ہورہا ہوںٗمیرے پڑھنے والے اپنی رائے قائم کرنے اور اس کے اطہار کے معاملے میں پوری طرح آزاد ہیں۔سید صاحب کی پہلی غزل (بقول خود) کا مطلع دیکھیے ؂ کہا ہے اس نے مرے ساتھ چل نہیں سکتا : تو کیا میں ا پنا ا ر ا د ہ بد ل نہیں سکتا! اپنے مزاج کی خود حوالگی، وارفتگی اور انکسار کے باعث شاعر براہ راست رد عمل کے اظہار کی جگہ صرف سوال کی صورت میں محض امکان پر کرنے پر اکتفا کرتا ہے کیونکہ وہ سیدانورجاویدہاشمی ہے۔یہی اس کی شناخت ہے۔اپنی تمام تر منکسر المزاجی کے باوجود وہ مثبت اقدامات کی جانب مائل رہنے والا آدمی ہے۔چپکے چپکے کچھ نہ کچھ کرتے رہنا، دبے پاؤں سہی، کچھوے کی رفتار میں سہی آگے بڑھتے رہنا اس کا شعار ہے۔اپنی ایک نعتیہ غزل میں واضح طور پر اس کا اعتراف کرتے ہیں کہ انہیں کچھ تعلیم ہوا ہے ؂ حسب ِ توفیق رہے ہاشمی ؔ ہر نیک عمل نعت ِ سرکار

 ؐ پڑھی جائے سرِ بزمِ غزل توشہ ء روز ِ مکافات بہم آج سے ہو آج جو بودیا ہم نے وہی پائیں گے کل عقل حیران نہو ، آنکھ نہ پتھرائے تو کیوں زندگی ہے کہ مسائل کی بھیانک دلدل سن مری بات! کہا دل نے ’طلب گارِ حرم یہ سعادت انھیں ملتی ہے جو ٹھہرے افضل‘‘ مجھ کو تعلیم ہوا صبر سے کوشاں رہنا راہ پُر پیچ سہی اپنے تئیں چل سو چل کار ِ دُنیا ہے فقط جی کا زیاں ، صرف زیاں رہ خرابے میں اگرچہ، پہ خرابی سے نکل میں نے سید انورجاویدہاشمی کی طبعیت یا افتادِ طبع کی انفرادیت کے بارے میں جو کچھ اوپر بیان کیا ہے وہ کسی نہ کسی حد تک ’’مجھ کو تعلیم ہوا، صبر سے کوشاں رہنا اور چل سو چل کے الفاظ سے ابلاغ پاتا ہے۔تعلیم جیسی بھی ہو،جہاں سے بھی ہو،اپنی جگہ لیکن دنیا(جس کو دنیاے دوں بھی کہا جاتا ر ہا ہے )پھر دنیا ہے اور اس کی دنیا تو زوال پذیر معاشرے پر مشتمل ہے۔اس دنیا میں بقول اس کے ؂ پہلے بھی بھوک پیاس یہاں مسئلہ رہی یہ اور بات لگتا نہ تھا مسئلہ مجھے اس دنیا میں گزربسر کرنا بھی تو ہے خواہ وہ بھی مسئلہ بن جائے ؂ کیاصبر،جستجونہ جہاں کارگر رہے ملتا نہیں ہے عرض و گزارش بنا مجھے اور وہ جو تعلیم ہوا اس سے بھی تو منہ نہیں پھیرا جاسکتا۔دوسری جانب لوگ آئینہ دکھلانے میں لگے ہیں ؂ دکھلارہے ہیں لوگ سبھی آئینہ مجھے : لے جائے دیکھیے یہ کہاں سلسلہ مجھے آئینے سے ہاشمیؔ کچھ اور ہی توقع رکھے ہوئے ہیں ؂ اک حقیقت ہاشمیؔ اظہار میں روشن ہوئی اک حقیقت میرا عکسِ آئینہ روشن کرے آئینے سے جڑا ہوا ایک امیج یہ بھی دیکھیے ؂ روگ دل کو لگائے بیٹھا ہے : سامنے آئینے کے بیٹھا ہے اس آئینے کو بھی دیکھیے ؂ عکس حسیں گرفت میں آجائے جس گھڑی آئینہ اس کے بعد سنورتا کچھ اور تھا یہ آپ سوچئے کہ یہاں آئینہ کون ہے…؟کیا ہے۔۔۔؟یہ استعارہ ہے، سمبل ہے یا رمز ہے۔۔؟

سید صاحب اور آئینے میں رابطے بہت ہیں۔جب وہ باہر ہوتے ہیں تو آئینہ انتظار کرتا ہے،اور کبھی کبھی جب وہ گھر لوٹ کر اس کے سامنے آتے ہیں تو آئینہ ان کو دیکھ کر ہنستا بھی ہے۔ انور جاویدہاشمی زوال پذیر معاشرے کا شاعر ہی نہیں وہ پاکستان کے زوال پذیر معاشرے کا شاعر ہے۔پاکستان جس کی نہ تو کوئی زبان ہے اور نہ ہی ثقافت۔اس ملک کے کسی شہری سے اس کی قومیت دریافت کریں تو ہزار میں شاید ایک کا جواب ہوگا پاکستانی۔ ایسے ملک اور ایسے معاشرے میں جہاں منافقت عامل ہو جہاں سوچا کچھ جاتا ہو اور کِیا کچھ مختلف ہی جاتا ہو۔شاعر کیا کہے،کیا لکھے اور کیا کرے۔فیض احمد فیض اور ن۔م۔راشد کا پاکستان ایک ملک تھا اور وطن کی محبت اور وطنیت اس کے فن کاروں،ادیبوں اور شاعروں کے اظہار اور ابلاغ کے ہر پیرائے میں بطور ایک اہم محرک کے موجود تھی۔انورجاویدہاشمی کا پاکستان جو اکیسویں صدی کا پاکستان ہے ایک بالکل ہی مختلف ملک ہے ’’ تقسیم کرو اور حکومت کرو‘‘کی حکمتِ عملی کے ذریعے اس ملک کے شہریوں کو ایک دوسرے سے دور۔متنفر اور مصروفِ جدال کرکے مقتدر طبقے نے اپنے اور اپنی اولاد کے لیے حاکموں کے طبقے کو نہ صرف جنم دیا بلکہ اس کو دوام بھی بخش دیا۔عوام کو رعیت میں بدل کر محکوموں کے طبقے کو مداومت کے رستے پر ڈال دیا گیا۔عوام کو آپس میں متحد ہونے کے ہر راستے کو مسدود کیا۔ایک قومی زبان رابطے کا کام کرسکتی تھی اس سبب سے اس کو کھڑکی سے باہر پھینک دیا گیا۔پاکستانیت و پاکستانی وطنیت پاکستانی قومیت کے نظریات کو بے معنی لفظیات کی صورت دے دی گئی۔مذہب اسلام کے نام پر عوام ایک دوسرے کے قریب آسکتے تھے لیکن اس کو دہشت گردوں اور انتہا پسندوں کے سپرد کردیا گیا۔انورجاوید ہاشمی اکیسویں صدی کے پاکستانی شاعر ہیں۔ان کی شاعری میں اس حقیقت کی جھلکیاں ملتی ہیں۔یہ جھلکیاں انتہائی ہلکی ہیں۔یوں بھی سید ہاشمی نرم لہجے کے شاعر ہیں لیکن میرے خیال میں آج کے عصر اور آج کے ماحول میں ہمارا مزاحمتی شاعر حبیب جالبؔ بھی اپنی آواز نیچی کرلے گا۔سیدانورجاویدہاشمی کے مندرجہ ذیل اشعار اس عصر اور ماحول کی تصویر کشی کرتے ہوئے ملیں گے ؂ کون کرتا خیالوں کی صورت گری : زندگی، آگہی۔۔۔ آگہی شاعری خاک میں کتنے موتی اتارے گئے : کتنی لہروں نے لاشوں کی گنتی گنی زندگی سے محبت نہیں ہے کسے : موت کی آرزو کس نفس نے نہ کی جس کے سینے میں رنجش تھی وہ کس لیے مجھ سے کہتا رہا یااخی، یا اخی …………… نازل کیا تھا رب نے جو دستور دین کا : اکیسویں صدی میں حقیقت نہیں رہی انورجاویدہاشمی اب یہ سوال کرتے ہیں کہ خاک میں کتنے موتی اتارے گئے یا پھر یہ استفسار کرتے ہیں کتنی لہروں نے لاشوں کی گنتی گنی تو یہ ضروری نہیں کہ وہ کسی ایک دن ، ایک جگہ یا ایک سانحے کا حوالہ دے رہے ہوں یا اس کی جانب اشارہ کررہے ہوں۔پاکستان میں یہ معمول کی صورت حال ہے۔اِن گنہگار آنکھوں نے جواں سال لڑکیوں کے برہنہ اور نیم برہنہ جسموں کو لہروں سے ابھرتے دیکھا ہے اور جوان مردوں کی لاشوں کو زیرِ آسمان پڑا ہوا پایا ہے۔اسی طرح منافقت کا یہ حال کہ سینے میں رنجش اور مخاطبت کے دوران’’بھائی‘‘ پکارنے سے عار نہیں۔آنکھ اوجھلپہاڑ اوجھل والا معاملہ تو عام سی بات ہے۔اس ضمن میں ہاشمی صاحب کا شعر کسی قدر تازہ کاری کے ساتھ ملتا ہے۔آپ بھی دیکھیے ؂ نظر سے ہوگیا اوجھل تو یہ بھلادے گا جو آج آکے مرے پاس کہٖ رہا ہے کچھ انورجاویدہاشمی کی شاعری کا بقول ان کے خیال سے رشتہ ہے،وہ کہتے ہیں ؂ جب تک خیالِ یار نے دستک نہ دل پہ دی آتا رہا خیال مگر شاعری نہ کی خیالِ یار نے دستک دی تو پھر ؂ سامنے شکل اک خیالی تھی یا حقیقت تھی یا مثالی تھی رنگ بکھرے ہوے تھے آنچل کے آسماں پر شفق کی لالی تھی غور سے چاند کو نہیں دیکھا بس اچٹتی نگاہ ڈالی تھی پھر نہ خلوت رہی نہ جلوت ہی نیند جذبات نے چرالی تھی آسمان و فلک پہ جگنو تھے ہم نے بھی انجمن سجالی تھی آگے دیکھیے ؂ ہے جرم عشق تو اقبال لکھ دیا جائے : کہو تو کھل کے وہ احوال لکھ دیا جائے عشق او ر شاعری ساتھ ساتھ ؂ ایسا لگتا ہے شعر کہتے ہوئے مصحفِ یار پڑھ رہا ہوں میں اُس کے رخسار کی تمازت سے دُور رہ کر بھی جل اٹھا ہوں میں دعا کے اس مرحلے کا گیان کیجیے ؂ تا قیامت رہے جہاں آباد : میرا محبوب ہے یہاں آباد خود اِن کے اپنے جینے کا طور دیکھیے ؂ ملے ہیں عیش جنہیں کم، یہاں ملال بہت : وہ جی رہے ہیں یہی ان کا ہے کمال بہت بس یہی سوچ کے تو کھائے زخم : ہم کو آرام دوگھڑی ہوجائے یہ تو ان کے کہے پر ہم نے مان لیا کہ عشق نے جب ان کے دل پر دستک دی تو ان کا بابِ سخن وا ہوا لیکن اس سے آگے ہم ان کو اور ان کی شاعری کو عشق سے 

جوڑنے پر مائل نہیں۔ان کی شاعری عشقیہ شاعری نہیں ہے۔وہ خود اختیار کردہ جدائی والے عاشق ہیں۔وہ عاشقِ صابر ہیں جن کے بارے میں فارسی غزل کے بادشاہِ سُخن سعدی کا فتوٰی موجود ہے ؂ ولے کہ عاشقِ صابر بُود مگر سنگ است زِ عشق تا بہ صبوری ہزار فرسنگ است ان کی خود اختیار کردہ جدائی کے بارے میں قیاسات قائم کرنے اور رد کرنے سے میں اپنے آپ کو اور آپ کو محفوظ رکھنا چاہتا ہوں کیونکہ اس کے لیے ہمیں ان کے کلام کے باہر جانا پڑے گا اور میں ایسا کرنا ہی نہیں چاہتا۔ان کی خود اختیار کردہ جدائی کا ایک نتیجہ آپ کو ان کے اس شعر میں نظر آئے گا ؂ میں بھی کتنا عجیب ہوگیا ہوں : آپ اپنا رقیب ہوگیا ہوں اس سے آگے کا مرحلہ دیکھیے ؂ فقر کی سرحدوں سے گزر کر : زندگی کے قریب ہوگیا ہوں میں جب ان کے دل پرعشق کی دستک اور اس دستک کے آہنگ پر ان کی شاعری کے آغاز کے مرحلے پر پہنچا تو یہی سمجھا کہ اب آگے کا رستہ سیدھا ملے گا لیکن ایسا ہوا نہیں کیونکہ نہ تو راستہ ملا اور نہ ہی سیدھا چلا بلکی ایک محور پر گھوم گیا۔اس محور کے مرکزی نقطے کی شناخت میں خاصی دقت پیش آئی۔صورت حال معمول کے مطابق نہیں تھی۔اس سے قبل میں نے ملا اور صوفی کے سفر(عرفان،آگہی اور گیان کی راہ میں)میں یوں امتیاز کیا تھا کہ ملا عرفانِ نفس سے ،عرفانِ کائنات میں الجھے بغیر، عرفان الٰہی کی جانب بڑھتا ہے جب کہ صوفی خالق سے مخلوق کی جانب آتا ہے۔سیدانورجاوید کا معاملہ ملا اور صوفی کے معاملات سے کسی طور پر مماثل نہیں۔یہ ایسے آدمی کا معاملہ ہے جو نہ تو ملّا ہے اور نہ صوفی بل کہ ایک آدمی ہے۔ایک شاعر آدمی۔اس آدمی کے بارے میں آپ کو بہت کچھ بتادیا ہے جی چاہتا ہے کہ اس کا درج ذیل شعر پڑھنے کے لیے پیش کروں ؂ آنکھیں نہ کب جھکائیں کہاں عاجزی نہ کی توڑا نہ دل کسی کا ، اہانت کبھی نہ کی ان کے مزاج کے عجز و انکسار سے تو آپ واقف ہوچکے ہیں اب یہ اضافی معلومات کے طور پر جان لیجیے کہ وہ لوگوں کا دل رکھنے والے آدمی ہیں اور کسی کی اہانت نہ کرنے والے آدمی بھی ہیں۔اس کا مطلب یہ ہوا کہ سیدانورہاشمی صوفی نہیں نہ سہی صوفی منش ضرور ہیں۔ان کی ایک اور خصوصیت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ پر ایمان و یقین کے ساتھ اس کی مدد پر بھی ایمان و یقین کے حامل ہیں۔ان کا یہ شعر دیکھیے: بندے کا پھر جہاں میں ٹھکانہ نہیں کوئی : پروردگار تو نے اگر بہتری نہ کی یہ شعر اور ؂ آد ی محروم ہو یا برسرِ پیکار ہو : احتیاج اپنی سرِ طاقِ دعا روشن کرے سیدانورجاویدہاشمی کی شاعری میں خود کلامی بہت ہے ان کا ’وہ‘اکثر ’میں‘ میں بدل جاتا ہے۔ہم عصر شاعر چٹکیاں لیتے ہیں تو وہ ان چٹکیوں کو سنجیدگی سے لیتے ہیں اور روبرو جواب دینے سے گریز کرکے اپنے کلام میں جواب دیتے ہیں۔وہ اپنے بارے میں اور اپنی شاعری کے بارے میں سوچتے بھی بہت ہیں ؂ ہاشمیؔ اپنی تشخیص کرکے : میں مکمل طبیب ہوگیا ہوں اس سلسلے میں طنزیہ انداز بھی اختیار کرلیتے ہیں ؂ شعر لکھتے نہ ہاشمیؔ کیوں کر : ہم نے اک شخص سے دعا لی تھی اک سخن ور یہ کہٖ رہا تھا کل : اک سخن ور ہیں خاندانی ہم کیا خوش کلام مرگئے پیشِ سخن بغیر اس شرط پر کہ میرؔ کی ہم سائیگی تو ہو سید انورجاویدہاشمی کو ابھی بہت کچھ کہنا ہے۔ابھی کہا ہی      کیا 
ہے۔۔۔؟ان کے آگے امکانات کا ایک روشن افق ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ڈاکٹر عبداللہ جاوید[ٹورانٹو، مسی ساگا]،کینیڈا

Post a Comment