ڈاکٹر سعادت سعید

نام ہی سے ہم نے پہچانے 
حیات بے کراں کے سلسلے 
رشتہ ہائے بندگی 
بے چارگی کے زاویے 
خشکیوں اور پانیوں کے رزمیے 
آسماں کے حاشیے
نام دے کر دہر کی اشیا کو ہم نے 
ان سے چھینی 
ان کے 
روز و شب کی خوشبو 


ان کو بخشے تخلیے 
انسان میرا نام ہے 
میں وحشیوں سے بر سرِ پیکار ہوں 
انسان ہوں، برتر ہوں میں 
اشرافیت کا تاج میرے سر پہ ہے
پانیوں سے زندگی ابھری 
سمندر کا بلاوا آ رہا ہے 
خواب میں جاگا ہوں اور یہ سوچتا ہوں 
میں ابھی زندہ ہوں 
اپنے کبر پہ نازاں بھی ہوں 
انسان ہوں اور اپنے 
تابندہ بدن کو چومتا ہوں
کس قدر بے کار ہے 
مردہ ہے یا معذور ہے 
وہ مرا محبوب 
جس کے تیوروں میں 
غیظ کی جلوہ نمائی 
سر میں سودائے رعونت 
آنکھ میں شعلے بھرے تھے 
وہ مرا محبوب 
جس کے ہاتھ میں 
رسوائیوں کا سحر تھا
مجھ سے باہر ایک طاقِ بے کراں ہے 
اس میں روشن 
اک چراغ ِدائمی ہے جس کا ایندھن 
دہر کی اشیا ہیں 
یعنی میں ہوں یا میرا مآخذ 
مجھ کو اپنے نام سے 
کچھ خوف سا آنے لگا ہے 
میں کہ اک جسم ِبسیط ِناگہاں 
تو کہ اک نام ِ محیطِ بیکراں 
وہ مرا محبوب بھی تو نام ہے 
وہ مرا محجوب بھی تو نام ہے 
وہ مرا مجذوب بھی تو نام ہے
آپ اپنے شوق کا مصلوب بھی تو نام ہے 
وحشتوں کا مستقل معتوب بھی تو نام ہے

Post a Comment