یہ کربلا ہے، یہاں ہے حصارِ تشنہ لبی
یہاں پہ آب ہُوا ہے شکارِ تشنہ لبی
یہاں کی خاک سے صیقل ہوئی طِلائے فلک
یہاں کی خاک ہوئی زرنگارِ تشنہ لبی
اٹھایا چلّو میں پانی، اٹھا کے پھینک دیا
کہ اب فرات پہ ہے اختیارِ تشنہ لبی
کسے مجال ترائی کو چھین لے ہم سے*
کسے مجال کہ ہو ذمہ دارِ تشنہ لبی


یہ زخمِ چشم ہرا ہے شمیمِ گریہ سے
یہاں پہ ٹھیری ہوئی ہے بہارِ تشنہ لبی
ذرا سی دیر کھِلا تھا تبسمِ اصغرؑ
لبوں پہ پھیل گیا اختصارِ تشنہ لبی
لہو سے ہو چکے سیراب، لوگ جا بھی چکے
پیالہ کرتا رہے انتظارِ تشنہ لبی
یہ آسماں پہ جو بادل دکھائی دیتا ہے
خرام کرنے لگا ہے غبارِ تشنہ لبی
ہٹا رہا ہے پڑاؤ کنارِ دریا سے
بڑھا رہا ہے کوئی اعتبارِ تشنہ لبی
عجیب خشکیِٔ لب ہے عجیب رنگ عطش
کہ سلسبیل کرے انتظارِ تشنہ لبی
دہانِ اکبرِ خوش رو ، لبانِ مسلم و جون
کہاں کہاں نظر آیا وقارِ تشنہ لبی
فرات، وہ تری صورت نظر نہیں آتی
یہ آئینہ بھی ہوا داغ دارِ تشنہ لبی
عارف امام
* اس خیال کو میں نے نصیر ترابی کے ایک شعر سے بطور تبرک لیا ہے۔
کون پانی کو روکنے والا
پیاس کا جبر احتیاری ہے
............................
تازہ سلام، پانچو یں محرم 1436

Post a Comment